ڈاکٹر مسون احمد بیگ
ویژن دستاویز2047کوجموںوکشمیر حکومت کے منصوبہ بندی، ترقی و نگرانی محکمہ نے جاری کیاجس میں غیر ہنر مند رہبر تعلیم (RET) اساتذہ کو خطے میں تعلیمی ترقی کےلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ میں یہاں ویژن دستاویز سے اصل الفاظ کا حوالہ دے رہا ہوں’’سرکاری سکولوں میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ/ReTs/RReTs (ویژن دستاویزصفحہ 158)‘‘۔ اساتذہ برادری نے ویژن دستاویز کے خلاف آواز اٹھائی۔ وہ نوکری کھونے سے نہیں ڈرتے بلکہ اپنی عزت و آبرو کیلئے فکرمندہیں۔
اگرچہ سلیکشن عمل منصفانہ تھا اور حکومت کے قواعد و ضوابط کے مطابق تھا ،آر ای ٹی سکیم بچوں کو ان کے گھر پر بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لئے شروع کی گئی تھی اور حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاًبھرتی عمل کے حوالے سے بہت سے سرکیولر جاری کیے گئے تھے جن پر عمل درآمد کیا گیا تھا۔ پہلے ریونیو لیج کو سلیکشن کیلئے یونٹ بنایا گیا تھا اور سب ٹھیک تھا لیکن جب سیاسی وجوہات اور ووٹ بینک کی وجہ سےآر ای ٹی بھرتی کی اکائی صرف “مسکن” یا “محلہ” تک محدودکی گئی تواس سے پورا نظام درہم برہم ہو گیا اور اس عمل میں کچھ لوگ آر ای ٹی کے طور پربھرتی ہوگئےجنہوں نے تعلیم کے معیار اور سٹنڈارڈ پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ سیاسی فائدے کے لئے مقامی نوجوانوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر وقتاً فوقتاً قوانین میں ترمیم کی جاتی رہی۔ “تعلیم سب کے لیے” یا (سروشکھشا ابھیان) کے نعرے کے تحت پرائمری سکول جگہ جگہ قائم کئے گئے جس نے حکومت کو مجبور کیاکہ وہ بہت سے سارے سکولوں کو ضم کرے۔ یہ سکیم تعلیمی نوعیت کی تھی، لیکن ہماری ریاست میںسیاست اس میں گھسی اور اسے “روزگار کی پالیسی” بنا دیا۔
میرے پاس اپنے گاؤں کی مثال ہے۔ ہم چار دوست تھے اور ہم میں سے تین نے سال 2000 میں پہلی کوشش میں دسویں جماعت پاس کی اور چوتھا فیل ہو گیا۔ اب المیہ دیکھو۔ ہم تینوں نے 2008 میں کشمیر یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن کی اور ہمارے دوست نے اسی سال 5 چانس کے بعد 12 ویں کلاس پاس کی اور رہائش کے معیار پر 2010 میں RET کے طور پر بھرتی ہو گئے۔ ہم ابھی تک بے روزگار ہیں، حالانکہ ایک ہی گاؤں سے ہیں۔ ہمارے گاؤں جیسی ایسی کئی کہانیاں ہیں۔
ایک اور المیہ یہ ہے کہ کچھ لوگ جعلی سرٹیفکیٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے اور سلیکٹ ہو گئے جبکہ کچھ نے جعلی یونیورسٹیوں یا سٹیڈی سنٹروں کی ڈگریاں تیار کیں جو ہماری وادی میں چند کنسلٹنٹس کے ذریعے چلائی جاتی ہیں۔ چونکہ متعلقہ زونل ایجوکیشن آفیسروںیا چیف ایجوکیشن افسران کی طرف سے اس وقت ایسا کوئی تصدیقی عمل نہیں کیاگیا تھا، اور لوگ محض دستاویزات کی زیروکس کاپیوں کی تیاری پر منتخب کئے گئے۔
رہبر تعلیم کو مستقل ملازم سمجھا جاتا تھا اور اسی بنیاد پر ان سب نے شادی کر لی ۔ اور اب اگر اس رہبر تعلیم ٹیچر کو تین دہائیوں کے بعد رسوا کیا جائے تو اس کا خاندان اور معاشرے میں کیا مقام ہو گا!
کہانی کا ایک اور رخ یہ ہے کہ رہبر تعلیم اساتذہ کو سال 2000-2001 میں اپنی تقرری کے بعد سے کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ ان رہبر تعلیم اساتذہ کا 50 روپے فی دن کے معمولی وظیفے پر پانچ سال تک استحصال کیا گیا؟
ویژن دستاویز 2047 اساتذہ کو ریڈار پر رکھتا ہے لیکن نظام کے دیگر مسائل جن میں سرکاری سکولوں کی ابتر صورتحال بھی شامل ہے، ان پر کان نہیں دھرے ہیںحالانکہ اچھی تعداد میں سکول ابھی بھی بنیادی ڈھانچے سے محروم ہیں۔ دستاویز میں پہلا خطرہ نجی تعلیمی اداروں کے مقاصد کی نگرانی سے متعلق ہے، لیکن کسی میڈیا ہاؤس نے اس معاملے کو نہیں اٹھایا بلکہ براہ راست رہبرتعلیم اساتذہ کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگایا۔ میری رائے ہے کہ صرف چند صحافیوں نے ویژن 2047 کی دستاویز کو دیکھا ہوگا اور باقیوں نے کہانی کو کاپی پیسٹ کیا ہے۔
اسی دستاویز کے صفحہ 163 میں جموں و کشمیر کی اعلیٰ تعلیم کا ذکر ہے جہاں ویژن دستاویز میں بیان کردہ پہلا خطرہ غیر ممالک کی طرف سے پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوانوں کی بے روزگاری اور برین ڈرین سے متعلق ہے۔’’روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکیوں کے ذریعہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کے غیر قانونی شکار کا مستقل خطرہ (ویژن دستاویزصفحہ 163)‘‘۔ لیکن آج تک کسی بھی میڈیا ہاؤس یا سماجی و سیاسی تنظیم نے خطے میں برین ڈرین اور بے روزگاری کے سنگین مسئلے پر بحث نہیں کی، بلکہ وہ بنیادی طور پر رہبر تعلیم اساتذہ پر توجہ مرکوز کرتے رہے۔
آخری المیہ یہ ہے کہ 333 صفحات پر مشتمل ویژن دستاویز میں میڈیا نے دستاویز کی ایک سطر کو نمایاں کیا اور سوشل میڈیا پر ایسی کہانیاں شائع کیں جس سے اساتذہ برادری کی بے عزتی ہوئی۔ رہبر تعلیم اساتذہ کی ساکھ اور قابلیت پر سوال اٹھانے سے پہلے، حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر سٹیک ہولڈروںکو بھی اپنے آپ کو دیکھنا چاہیے کہ رہبرِ تعلیم اساتذہ نظامِ تعلیم کے ستون ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی ہے کہ تمام اساتذہ ایک ہی ڈنڈے سے چلائے جا رہے ہیں۔ یہ بتانا مناسب ہے کہ بہت سارے رہبر تعلیم اب لیکچرز کے طور پر کام کر رہے ہیں اور کچھ ضلعی سطح کے افسران کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
ان اساتذہ نے الیکشن ڈیوٹی کے دوران اپنی جان بھی خطرے میں ڈالی۔ انہوں نے مردم شماری کی رپورٹیں تیار کیں – نیتی آیوگ میں ترقی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے ایک اہم سروے بھی کیا۔ یہی نہیں، ان اساتذہ نے ووٹر لسٹیں تیار کیں۔ اس طرح یونین ٹیریٹری اور ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے کو بھی تقویت ملی۔ اساتذہ ڈیجیٹل علم کو پھیلانے میں پیش پیش ہیں اور ڈیجیٹل انڈیا پروگراموں میں حصہ لیا اور ان کی خدمات کو آدھار کارڈ اور راشن کارڈ رجسٹریشن سے استعمال کیا گیا۔ وہ حکومت کی طرف سے منعقد کیے جانے والے بیک ٹو ولیج پروگراموں کے دوران فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں۔
یہ بتانا مناسب ہے کہ ان اساتذہ نے کووڈوبائی لہر کے دوران اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اہم کردار ادا کیا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان اساتذہ کو کووڈ مراکزمیں نوڈل آفیسران کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور یہاں تک کہ کچھ لوئر منڈا قاضی گنڈ، ریلوے سٹیشن اور ہوائی اڈے پر سکریننگ کر رہے تھے۔ ان اساتذہ کے کام کو یوٹی اور قومی سطح پر سراہا گیا اور بہت سے رہبر تعلیم اساتذہ کو یوٹی سطح پراعزازات سے نوازا گیا۔اس سال اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے رہبر تعلیم ٹیچر ریاض احمد شیخ کو قومی سطح پر بہترین استاد کا ایوارڈ ملا۔
اختتامیہ
لہٰذا رہبر تعلیم اساتذہ کی قدر و منزلت پر سوال اٹھانے سے پہلے ضروری ہے کہ ویژن دستاویز 2047 میں مذکور یونین ٹیریٹری کے دیگر شعبوں پر ایک نظر ڈالی جائے۔تعلیمی نظام کیلئے مہارتوں، ٹیکنالوجی کو مربوط کرنے، کمیونٹیز کو شامل کرنے، خصوصی تعلیم کی حمایت کرنے، تشخیص کی تکنیک کو بہتر بنانے، سماجی و اقتصادی تفاوت کو دور کرنے اور مسلسل نگرانی اور تاثرات کے نظام کے قیام پر بنیادی توجہ مرکوز کرتے ہوئے نصاب کو اپڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ ویژن ڈاکومنٹ کو اول تا آخر پڑھے اوراس میںدرج دیگر شعبوں اور محکموں سے متعلق مسائل کو بھی اجاگر کرے۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج کولگام میں جغرافیہ پڑھاتے ہیں۔)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)