ٹوٹے پھوٹے گھر کے آنگن میں ایک پھٹی پرانی چٹائی پہ کروٹیں بدل بدل کر اپنے آپ میں مگن وہ کبھی لوریاں گایا کرتی تو کبھی گم سم بیٹھی رہتی تھی ۔ جون کی جھلسا دینے والی دھوپ والے دن، جب ہر کوئی سائے میں بیٹھ کر گرمی سے راحت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا، میں بھی وہ دھوپ میں اس پرانی چٹائی پر لیٹے جیسے اپنے آپ سے بالکل بے خبر کچھ سوچ رہی ہوتی تھی۔ وہ آتے جاتے ہر شخص کو دیکھتی اور پھر سرد آہ بھرتی گویا وہ کسی کو تلاش کرتی ہو۔ اس کے سرہانے کچھ دوائیاں بھی رکھی تھیں ۔ میں روز اس راستے سے گزرتا تھا اور اس کے آنگن میں جھانکا کرتا تھااور ہر روز اسے اسی انداز میں چٹائی پہ لیٹے دیکھتا ۔ میں ہر بار یہ ارادہ کرکے نکلتا تھا کہ آج میں اس سے بات کروں اس کا دکھ بانٹنے کی کوشش کروں گا لیکن ہر بار اس سے بات کئے بغیر ہی وہاں سے گزر جاتا تھا۔ مہینے بیت چکے تھے میں نے اسے کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کوئی اس کے آس پاس کبھی دکھائی دیا۔ وہ روز اسی سڑک کی طرف دیکھ رہی ہوتی تھی جہاں سے میں گزرتا تھا۔ میں اس گائوں میں نیا نیا تھا اس لئے کسی سے یوجھنا بھی مناسب نہیں سمجھتا تھا۔ اب یہ نظاہرہ میرے لئے معمول سا بن چکا تھا اور روز وہاں سے گزرتے وقت اسے دیکھنے کی تمنا ہوتی لیکن اسے دیکھنے کے بعد ہر بار دل رنجیدہ ہو جاتا تھا۔ اس کی حالت جتنی پریشان کن تھی اتنا ہی اس کا چپ رہنا بھی دل کو جھنجوڈ کر رکھ دیتا تھا۔ اس کی اُس خاموشی میں گویا کوئی طوفان بسا ہو۔ آج بھی میں معمول کے مطابق اپنے وقت پہ اس گھر کے آنگن تک پہنچ گیا۔ لیکن آج کا نظارہ کچھ زیادہ رنجیدہ کرنے والا تھا ۔ وہ آج اُس چٹائی پہ نظر نہیں آئی بلکہ اس آنگن میں کئی لوگ جمع تھے جنکی آنکھیں پُرنم تھیں اور کسی بات ایک دوسرے سے افسوس کر رہے تھے۔ میں آگے بڑا اور ہمت کر کے آنگن میں داخل ہوا ۔ اس سے پہلے کہ میں کسی سے کچھ پوچھ لیتا میں نے اس گھر کی دہلیز کے پاس ایک چارپائی پر اسے مردہ حالت میں دیکھا ۔ اس کی روح اب پرواز کر چکی تھی۔ شاید یہ پہلی بار تھا کہ میں اسے غور سے دیکھ سکا۔ اس کے چہرے کی جھریاں اس پر بیتے ہر ظلم کی داستان بیان کر رہی تھیں۔ اس کے سفید بالوں سے اس کی عمر کے ساتھ ساتھ اس کے دکھ بھرے تجربے نمایاں تھے۔ میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن میرا دل نہ جانے کیوں خون کے آنسو رو رہا تھا۔کاش میں نے ہمت کر کے اس سے کبھی بات کی ہوتی، میں من ہی من سوچنے لگا ۔ وہ ادھیڑ عمر کی عورت جو اب اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھی آخر کون تھی؟ اس کا کوئی وارث تھا بھی یا نہیں؟ وہاں موجود ایک شخص سے میں نے یہ سوال کئے تو اس نے ایک سرد آہ بھر کر کہا۔۔۔۔۔۔ بیٹا ! یہ زرینہ ہے ۔ ۔۔۔یہ بھی کبھی خوشحال تھی۔ ۔۔۔یہ گھر جو اب ایک کھنڈر بن چکا ہے کبھی ایک خوشحال گھرانہ تھا ۔۔۔۔ اس عورت کا ایک ہی بیٹا تھا اور اسے یہ اپنا سب کچھ مانتی تھی۔۔۔ پھر ایک دن وہ اچانک غائب ہوا ۔۔۔ کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا لیکن کوئی نشان تک نہیں ملا ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد اپنے آپ کو گھر کے اسی آنگن میں قید کرکے اپنے بیٹے کا انتظار کرنا ہی اس عورت کا معمول بن گیا۔۔۔۔ بیٹا تو نہیں آیا لیکن انتظار بالآخر ختم ہو گیا۔۔۔۔
وہ شخص بول ہی رہا تھا کہ ایک نوجوان نے بات کاٹتے ہوئے اس سے مخاطب ہوکر کہا: کریم چاچا ! یہ کشمیر ہے یہاں لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے ان میں سے ایک اس بد نصیب عورت کا بیٹا بھی تھا۔
رابطہ؛ہردوشیواہ سوپور/9906607520/