ارشاد علی
تیس نومبر بیس سو چوبیس، سنیچر وار ، میری چھتیس سالہ سرکاری خدمات کے شب و روز کا آخر ی دن ۔صبح صادق کا وقت ہے۔آسمان پورے جوبن کے ساتھ جگمگا رہا ہے ۔چاروں طرف سکوت کاعالم اورمیں تنہا عالم تخئیل میں گم سم ،سکول سےرخصت کے یادگارلمحات کی منظر کشی میں محو تھا کہ اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی ،دیکھا تو (BEGUM)یعنی میری اہلیہ محترمہ ،دعا سلام کے بعد حال و احوال پوچھا ،گھر میں ہو رہی ظہرانے اور استقبالیہ کی تیاریوں سے آشنا کرایا،جگمگاتے آکاش کی نوید سنائی اور میری آمد پر قرابت داروں ،پڑوسیوں نیز احباب کے اشتیاق استقبال سے مجھےآگاہ کیا !
ادھر خون جگر سے سینچے ہو، گلستان کی معطر فضائیں پیہم میرے خیالات کی دنیا میں اپنی خوشبوئیں بکھیر کر دل کے دریچوں پر دستک دے رہی تھیں، مجھےکبھی مارننگ اسمبلی کی معصوم ندائیں تو کبھی سکول کے درو دیوار کی خاموش صدائیں اپنی طرف بلا رہی تھیں۔کبھی بچوں کی پر کیف ادائیں تو کبھی اپنے رفیق colleagues کی انمول وفائیں یاد آرہی تھیں ۔کبھی اپنے باس کی بے انتہا مروّتیں توکبھی اپنے Ministerial Staff کی بے انداز محبتیں یاد آرہی تھیں۔کبھی کھڑی کے عوام کی بے پناہ رفاقتیں تو کبھی چند روز قبل سکول میں دی گئی پُر وقارالوداعی پارٹی کی یادگار ساعتیں بے چین کئے جارہی تھیں۔ ایسے میں میری زبان پر ایک ہی کلام جاری تھا، یاد ماضی عذاب ہے یارب ۔لیکن خیالات کو کیا کیجئے! ماضی کے حسین مناظر نگاہوں سے اوجھل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے بلکہ فی البدیہہ ان حسین لمحات کی منظر کشی موافق طینت خاموش لبوں کی زینت بنتی جا رہی تھی۔وہ معصوم طلباء کی سجھتی قطاریں
خزاں کی خنک اور ڈھلتی بہاریں
مدُھر گونجتی تالیوں کی صدائیں
قلب کو سکون دینے والی ادائیں
وہ تازہ گلوں کی عجب گل فشانی
وہ رسمِ ‘ربن وہ فزائیں سہانی
تخت گاہ پہ وہ نیلگوں شامیانہ
وہ شیشے کے ٹیبل وہ صوفے سجھانا
محبت سے باہم بغل گیر ہونا
کہیں دست شفقت سے کاندھوں کاچھونا
وہ برلب تبسم وہ در دل محبت
نگاہوں سے میٹھی جھلکتی مروّت
وہ تحفے تحائیف کی سوغات نیاری
ادا شال پوشی کی وہ پیاری پیاری
وہ سر پہ سجھانا کلاہ خُسروانی
وہ استاذ و طلباء کی گوہر فشانی
وہ لانا بڑے کیک کا طشتری میں
کھلانا وہ دلبر کا پھر دلبری میں
سجھےمیز پر تھے وہ مشروب پیارے
نہیں بھول سکتے وہ دلکش نظارے
وہ دارالکُتب میں خوان کا بچھا نا
وہ پھر پیار سے مست کھانا کھلانا
۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔اور یہ سب حسین مناظر قلب مضطر پر دستک دیکر دل بیقرار کواور زیادہ بیقرار کئے جا رہےتھے۔اتنے میں فجر کی اذان ہوئی ‘
میں نے ماضی کی ان شیرین یادوں کو دل کے نہاں خانے میں محفوظ کر لیا اور کمرےکا دروازہ کھولا۔ دربار الہٰی میں حضوری کے بعد آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی تو آسمان کو ابر آلودہ پایااور دیکھتے ہی دیکھتے بوندا باندی شروع ہوگئ ۔ادھر فون کی گھنٹی بجی تو ایک بار پھر گھر سےاہلیہ محترمہ کا فون آیا ۔’’ یہاں بارش کے ساتھ ساتھ تیز برف باری شروع ہو گئ ہے۔‘‘اب کی بار انکی آواز میں وہ صبح صادق والاکیف و سرور نہ تھا بلکہ اس میں ہلکی سی اداسی اور تلملاہٹ کی آمیزش تھی۔میں نے انکو تسلی دیتے ہوئے کہا فکر نہ کرنا ‘ اللہ تعالےٰ رحیم ہے ،انشاء اللہ موسم سازگار ہوگا۔
میں مالک مکان کے ہاں چاے نوش کر رہا تھا کہ اتنے میں گھر سے میرے عزیز و اقارب مجھے Receive کرنے کھڑی پہنچ گئے۔ میں نے ان کو کمرےمیں لیا، چائے پلائی اور اس دوران اپنا پوشاک زیب تن کیا اور سکول انتظامیہ کی Call کا انتظار کر تے رہے۔دریں اثنا مالک مکان کے اہل خانہ ڈھیر ساری محبتیں لیکر کمرے کے باہر میرے استقبال کے منتظر تھے۔اتنے میں پرنسپل صاحب کی call آئی اور ہم نے سکول کا رخ کیا۔
حسب معمول میں نے بسم اللہ پڑھ کر سکول کے مین گیٹ کے اندر قدم رکھا کیونکہ یہ ایک سرکاری عہدیدار اور استاد کی حیثیت سے کسی تعلیمی ادارے میں داخل ہونے والا میرا آخری قدم تھا۔سکول کے احاطہ میں قدم رکھتے ہی طلباء وطالبات نے اپنا پیار نچھاور کرتے ہوئے تالیوں کی گونج کے ساتھ ہمارا استقبال کیا ،جس سے میں انتہائی جذباتی ہوگیا کیونکہ یہ طلباء عزیز کی طرف سے اپنے استاذ کے احترام میں آخری اور الوداعی استقبالیہ تھا۔ہم جناب پرنسپل صاحب کے ہمراہ کرافٹ روم میں داخل ہوئے جو کہ سکول کا سب سے بڑا اور خوبصورت ہال تھا ۔یہاں کرسیاں ترتیب وار سجھائ گئ تھیں،ڈائس سجھایا گیا تھااور ٹیبل کو میز پوش اور پھول دان سے مزّین کیا گیا تھا ۔میں نے دیکھا کہ آر ای ٹی فورم زون کھڑی کے صدر اپنے دیگر زعماءکے ساتھ مجھے الوداع کہنے اور اپنے محبت کا اظہار کرنے کے لئے پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔فورم کے زعماء نے نہایت ہی پر خلوص اندازمیں بے انتہا پیارو محبت کے ساتھ شال پوشی کی اور تحفےتحائف سے نوازا۔اس دوران خراماں خراماں تمام سٹاف ممبران ،چند معزز شہری اور طلبا وطالبات سے ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا۔ جناب پرنسپل صاحب نےاپنے سٹاف کے ہمراہ پر وقارطریقہ سے میری عزت افزائی کی۔ انفرادی تحائف سے نوازا ‘ تقاریر ہوئیں ،چاے نوشی ہوئی اور مجھے نہایت ہی عزت واکرام کے ساتھ میرے آشیانہ واقع مہو کی جانب روانہ کرنے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ موسم کی ناسازی گاری اور وقت کی نزاکت کو بھانپتے ہوے میں قدرےعجلت میں تھا کہ اتنے میں میرے ایک سینئر ساتھی نے میرے کاندھے پر اپنا دست شفقت رکھکر کہا، ارشاد صاحب عجلت نہ کرو،ابھی آپ کی Attendence باقی ہے۔آپ نے اس کی عکس بندی کرنے کا بھی مشورہ دیا اور یوں اپنے تجربات سے یہ ثابت کر دیا کہ آدمی کو( من المھد الی اللحد) سیکھتے ہی رہنا ہے۔مجھے ان الوداعی لمحات میں بہت کچھ دیکھنے ،سیکھنے اور پرکھنے کو ملا جو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔میں نے پرنسپل صاحب کی موجودگی میں Arrival پردستخط کئے، اللہ کا شکر ادا کیا، پرنسپل صاحب کا ہاتھ تھاما اور چل پڑا ۔سکول کے صدر دروازے سے ہاہر نکلنے سے قبل سکول کییمپس کو آخری بار پر نم آنکھوں سے دیکھا اور اپنےجگر گوشوں کو افسردہ دل سے الودداع کہا اور چل پڑا،لیکن مجھے فوراًمحسوس ہوا کہ دل کچھ اٹک ساگیا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں ایک آواز گونجنے لگی ۔یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ہم کیا کریں! یہ آوازشاید میرے کانوں تک ہی محدود تھی۔ میں نے دل کو تھاما اورآگے نکلا۔نکلتے نکلتے میرے ایک جگری colleague کی آواز کانو ں سے ٹکرائی کہ’’ سر۔۔۔رکو۔۔بچے آپ کے آگے چلیں گے اور ہم آپ کے ساتھ ‘‘ یہ آواز جگر کو چیرتی ہوئی دل کے نہاں خانہ میں اترگئ اور مجھے انتہائی emotional کر گئی! کیونکہ اس صدا میں ادا ئے دلربا اور وفاے بے پناہ تھی۔یقین مانئے کہ وہ صدائے باز گشت ابھی تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے اور ہمیشہ گونجتی رہے گی کیونکہ۔ وہ سکول میں میرا آخری دن تھا ۔
گھڑی یہ الوداع کی ہے بچھڑنا لازمی ٹھہرا
فضائے دوستاں کو اب بدلنا لازمی ٹھہرا
ہمیں ایسے بچھڑنا ہےکہ گویا کل بھی ملنا ہے
لگا کے حاضری چپ کے نکلنا لازمی ٹھہرا
میں اپنے پرنسپل صاحب اور دیگر سٹاف کے احسانات اور طلباء کےحقوق کی عدم ادائیگی کا بدلہ تو نہیں چکا سکتا البتہ یہ تحریر محض دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔فقط!
(سابقہ لیکچرار(عربک)ہائر سکنڈری سکول کھڑی( بانہال)ضلع رام بن)
رابطہ۔9906205535.
[email protected]