بلا شبہ، اس دنیا میں زیادہ تر لوگ وقت کی اہمیت اور اسکی قدرو قیمت نہیں سمجھتے ہیں ۔بہت سے لوگوں کو وقت ضائع کرنے کا احساس تک نہیں ہوتاہے ۔ ایسے لوگ کبھی یہ سوچنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتے کہ وقت دراصل قیمتی اثاثے، مال و دولت،جائیداد اور سونے چاندی سے بھی زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ وہ وقت کو بڑی نا قدری اور بے دردی سے بے دریغ خرچ کرتے رہتے ہیں یا کہیں یونہی بُری طرح برباد کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اس حقیقت سے نا بلدہیں کہ گھڑی کی ٹک ٹک در اصل زندگی کے درخت پر کلہاڑی کے مضر اور قاتل وار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کی ترقی کی جو رفتار ہونی چاہیے، وہ بے حد سست یا اتنی کم ہے کہ اسے قابل توجہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے مذہبی شخصیات، سماجی سروکار کی تنظیمیںاور گھر کے بزرگ وقتاً فوقتاً اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں وقت کی اہمیت اور اسکی قدر و قیمت سے ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔
آج کا عہد اخبار، ریڈیو ، ٹی وی کے علاوہ انٹرنیٹ کا ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم کے ذریعہ عوام کو وقت کی اہمیت اور قدرو قیمت کی طرف متوجہ کرنا چاہیے کیونکہ وقت کا صحیح استعمال ترقی کا ضامن اور گارنٹی ہے۔ وقت زندگی کا بیش قیمتی سرمایہ ہے۔ اگر ہم وقت برباد کرتے ہیں، تو وقت بھی ہماری کامیابی و کامرانی کو برباد کرنے میں کوئی رعایت نہیں کرتا ہے! در حقیقت، ہمیں گھڑی کی ٹک ٹک کو معمولی نہیں سمجھنا چاہے۔یہ زندگی کے درخت پر کلہاڑی کے جان لیو ا ایسے وار ہیں جسکا احساس وقت گذرنے کے بعدہوتا ہے !
انسانی زندگی کے ارتقاء سے لے کر آج تک، جن مفکّرین، فلاسفر، مورخین، شعرا و ادبا، سیاست داں اور بڑے بڑے تاجروں، سماجی خدمت گاروں، معلموں، استادوں اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے وقت کی قدرو قیمت پہچانی ہے، وہ اپنی ذاتی زندگی، سماج، ملک اور پوری دنیا میں کامیاب و کامران ہوئے ہیں۔
ارستو سے ڈاروِن تک اور سقراط سے خلیل جبران تک، سبھی نے وقت کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمدؐ صاحب نے وقت کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ جس دن میں نے کچھ سیکھا نہیں، وہ دن میری زندگی میں شامل نہیں۔
بابا فرید اور گرونانک دیو جی نے بھی وقت کی قدرو قیمت پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مریدوں اور شاگردوں کو نصیحت کی کہ دین و دنیا، دونوں کے کام میں وقت کی پابندی کرنے سے ہی دین اور دنیاسنورتے ہیں اور آدمی کامیابیوں کی منزل کی طرف آگے بڑھتا رہتا ہے۔
گاندھی جی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ وقت کی قدرو قیمت کرنے والا، اس کی پابندی کرنے والا اور اس کی آواز پرلبیک کہنے والا زندگی میں کبھی بھی ناکامی سے دوچارنہیں ہوسکتا۔ایک مغربی مفکّرکا قول ہے کہ اخلاقی عمل کا عظیم قانون، خدا کے بعد یہ ہے کہ وقت کا احترام کرو۔
The great rule of moral conduct is, next to God, to respect time.
درحقیقت، وقت قدرت کی امانت ہے جس کا ایک پل بھی ضائع کرنا مجرمانہ خیانت اور بے ایمانی ہے۔ کیونکہ وقت وہ قیمتی سرمایہ ہے، جس کو قدرت نے ہر شخص کو یکساں طور پر عطا کیا ہے۔ اس موقع پر، عالم گیر شہرت یافتہ انگریزی ڈرامہ نگار اور شاعر شیکسپیئر (Shakespeare) کا قول یاد آرہا ہے کہ میں نے وقت کو ضائع کیا تھا، اب کوشش اور بے شمار دولت خرچ کرنے کے بعد بھی ،وہ دوبارہ واپس نہیں مل سکتا ہے۔نپولین (Napoleon) وقت کے ہر لمحہ سے فائدہ اٹھاکر میدان مارلیا کرتا تھا۔ اس نے آسٹریا کو اس لیے فتح کر لیا تھا کہ اہلِ آسٹریا کو پانچ منٹ کی قدرو قیمت نہیں معلوم تھی۔
دراصل، وقت کو کھونا، عمل کو کھونے کے مترادف ہے جس نے عمل کے مواقع کھو دیے، اس نے اپنا سب کچھ کھو دیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت ہر شخص کا سب سے بڑا سرمایہ اور پونجی ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں، وہ موجودہ وقت میں کرتے ہیں۔ جہاں وقت ختم ہوجائے، وہاں آدمی کا عمل بھی ختم ہوجاتا ہے۔ وقت ضائع کرنے یا وقت کا صحیح استعمال نہ کرنے کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس جو سب سے بڑی دولت ہے، ا س کو ہم برباد کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا کوئی بھی شخص عقلمنداور سمجھدار نہیں کہلائے گا۔
اردو شاعروں نے بھی اپنے اپنے انداز میں وقت کی اہمیت اور قدرو منزلت کو شعری جامہ پہنایا ہے ؎
ہے کام کے وقت کام اچّھا
جب کام کا وقت ہو، کرو کام
خوش رہنے کا ہے یہی طریقہ
چھوڑو نہیں کام کو ادھورا
جو وقت گزر گیااکارت
افسوس ! ہوا خزانہ غارت
(اسماعیل ؔمیرٹھی )
وقت کی ہر شے غلام، وقت کا ہرشے پہ راج
وقت ہے پھولوں کی سیج، وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے و قت سے ڈ ر کر رہے
کون جانے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
(ساحر لدؔھیانوی )
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیرؔ
آج کل ہوتا گیا اور دن ہَوا ہوتے گئے
( منیر ؔنیازی)
وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کر کے چھوڑے گا
(دواکر رؔاہی)
عجیب سوداگر ہے یہ وقت بھی، جوانی کا لالچ دیکر بچپن لے گیا اور امیری کا لالچ دیکر جوانی لے گیا !
ہر ہوش مند شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ گیاوقت لوٹ کر نہیںآتا ہے ۔ وقت غلطی سے سمند ر میںگِرا ہوا وہ بیش قیمت موتی ہے، جس کا دوبارہ ملنا نا ممکن ہے۔سال کی قدرو قیمت اُس سے پوچھو جو امتحان میں فیل ہوا ہو ، مہینہ کی قیمت اُس سے پوچھو جس کو پچھلے مہینہ تنخواہ نہ ملی ہو ، ہفتہ کی قیمت اُس سے پوچھو جو پورے ہفتہ کسی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں رہا ہو، دن کی قیمت اس سے پوچھو، جس نے پورا دن کام کیا لیکن اسے اسکی مزدوری نہیں ملی ، گھنٹہ کی قیمت اس سے پوچھو جس نے کسی اُمید پر کسی کا بے چینی سے انتظار کیا ہو، منٹ کی قیمت اس سے پوچھو جسکی ابھی ابھی ٹرین مِس ہوئی ہو اور لمحہ کی قدر و قیمت اس سے پوچھو جو ایک لمحہ پہلے کسی حادثہ یا کسی تیز رفتار کار سے جان لیوا اکسیڈینٹ سے بچا ہو!
اس میں دو رائے نہیں کہ وقت کبھی کانٹا ہے تو کبھی پھول لیکن یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم سوجھ بوجھ اور دانشمندی سے کانٹوں کی خلش اور چبھن سے بچے رہیں اور پھولوں کی خوشبو اور خوبصورتی سے اپنی زندگی کو سجاتے اور سنوارتے رہیں ۔
(مضمون نگار ڈی ڈی اردو و آل انڈیا ریڈیو کے سابق آئی بی ایس افسر اور ساہتیہ اکادمی قومی ایوارڈ و دلی اردو اکادمی ایوارڈ سے سرفراز ہیں )
(رابطہ۔9810141528)
rais:[email protected]