وقت کی قدر کرو،یہ زندگی کا سرمایہ ہے

بے شک وقت کبھی واپس نہیں آتا اور عمر دوبارہ نہیں مل سکتی ہے۔ جس نے وقت سے کوئی نصیحت نہیں لی،اُسے بغیر چرواہے کی اونٹ کے ساتھ چرنا چاہئے۔اس لئے وقت کی قدر کرو اور اس کو فضول ضائع مت کرو۔اگرچہ انسان برسوں میں جوان ہوتا ہے لیکن اگر وہ اپنے وقت کو بہترین طریقے پر صرف کرے تو گھنٹوں میں بوڑھا یعنی تجربہ کار ہوجاتا ہے۔یاد رہےکہ وہ وقت ہرگز انسانی زندگی میں محسوب نہیں ہوسکتا جو لہو لعب میں صرف کیا جاتا ہو،اور جو شخص وقت کی قدر نہیں کرتا وہ کوئی اقتدار بھی حاصل نہیں کرسکتاہے۔دانش مند وقت کی قدر اس کی موجودگی میں کرتے ہیں اور نادان اِسے کھوکر بےدار ہوتے ہیں۔ اس لئےدانش مندی یہی ہے کہ وقت کی قدر کرو اور باقاعدگی اپنا اصول بنائوکیونکہ دنیا میں اگر کوئی حاصل کرنے کی چیز ہے تو وہ پابندیٔ وقت ہے۔ آ ج ہمارے معاشرے میں سب سے سستی اور بے قیمت چیز اگر ہے تو وہ نظم و ضبط کی کمی اوروقت کی ناقدری ہے، وقت کی قدر وقیمت کا ہمیں قطعاً احساس نہیںہوتاہے، یہی وجہ ہے کہ وقت کے لمحات کی قدر نہ کر نے سے منٹوں کا، منٹوں کی قدر نہ کر نے سے گھنٹوں کا ،گھنٹوں کی قدر نہ کرنے سے ہفتوں کا ، ہفتوں کی قدر نہ کر نے سے مہینوں کا، مہینوں کی قدر نہ کر نے سے برسوں کااور برسوں کی قدرنہ کرنے سے عمروں کا ضائع کر نا ہمارے لیے بہت آسان بن گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر زندگی میں وقت کی قدر نہ کی جائے اور اسے غفلت، سستی و کاہلی میں گزارتے ہوئے بُرائی یاشَر کی نذر کر دیا جائے تو پھر مایوسی اور ندامت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔اسی طرح کسی کے خوبیوں کی بے جا تعریف کرنے میں بھی اپنا وقت برباد کرنا بھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن صالح بندوں کے مزاج میں دین داری اور نیکی ہو تی ہے، وہ وقت کے قدر دان ہوتے ہیں اور اپنی آخرت بنانے اور دنیا سنوار نے کی فکر انہیں دامن گیر ہو تی ہے، وہ بےکاری، آوارگی، لہو و لعب اور فضولیات میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے، کسی کابُرائی سے تذکرہ کر نے ،عیب جوئی کرنے اور بہتان تراشی اور بے کار ولا یعنی گفتگو کے لئےان کے پاس فرصت ہی نہیں ہوتی ۔وہ اس بات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو جسمانی صحت اور فراغت ِاوقات کی نعمتوں سے ضرورنوازتاہے لیکن یہ نعمتیں ہمیشہ رہنے والی نہیں ہوتیں اور کسی بھی وقت زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا انسان کو ان عظیم نعمتوں کی قدر کرتے ہوئے انہیں بہتر استعمال میں لانا چاہیے۔ چنانچہ دین ِاسلام میں نظم و ضبط اوروقت کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے اور اسے ضائع کرنے کے ہر پہلو کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔کیونکہ وقت بڑی قیمتی دولت ہے، اس سے جو فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، وہ کر لیا جائے، آج صحت و تند ستی ہے، کل نہ معلوم کس بیماری کا شکار ہو نا پڑجائے۔آج جوانی کا سنہرا دور ملا ہوا ہے، کل بڑھا پے میں نہ جانے کن احوال سے سابقہ پڑے اور کیا امراض و عوارض لگ جائیں، آج صاحبِ حیثیت ہیں، کیا پتہ کل کیا حالت ہو جائے؟ اس لیے جائز طریقوں پر جو کر نا ہے کرلیا جائے، جو کمانا ہے کمالیا جائے، جو فائدہ اٹھا نا ہے اٹھالیا جائے، ورنہ’’وقت دودھاری تلوار ہے‘‘ اگر تم نے اسے نہ کاٹا، وہ تمہیں کاٹ ڈالے گی ،ظاہر ہے کہ صحت اور فراغت دو ایسی عظیم نعمتیں ہیں، جن کے سلسلے میں بے شمار لوگ خسارے میں رہتے ہیں، اس لیے بعد میں پچھتانے سے یہ بہتر ہے کہ انسان آج ہی ان کی قدرکر لے۔بے شک وقت بے شمار مسئلوں کو حل کردیتا ہے، اس لئےوقت کو سونے سے زیادہ قیمتی سمجھو،ایک لمحہ بے کار ضائع نہ کرواور اُس وقت تک کامیابی کی قطعی اُمید نہ رکھو جب تک تم ہاتھ باندھے بیٹھےر ہو۔یا رکھو کہ جو کوئی بھی پیش از وقت مانگتے ہیں اور پیش از وقت چاہتے ہیں،انہیں ہمیشہ رنج وغم سے سِوا کچھ نہیں ملتا ہے۔ضرورت اس بات ہے کہ عصرحاضرکے اس تیز رفتار دور میں ہم سب اپنے بیش قیمت وقت کا ہرلمحہ محنت و مصروفیت میں گزاریں ،اسی میں سکون ،راحت و سچا لطف ہےاور کامیابی بھی۔کیونکہ وقت ہی زندگی کا وہ سرمایہ ہے،جسے فضول میں لُٹانے سے انسان ہرسطح پر اورہر معاملے میںکنگال ہوکر رہ جاتا ہے۔