سرینگر//شوپیاں شہری ہلاکتوں اور کھٹوعہ میں معصوم بچی کی عصمت دری و قتل کے خلاف حزب اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفی کی رہائش گاہ تک مارچ کیا جس کے دوران آصفہ کے قاتلوں کوسزا دینے اور شوپیان شہری ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیاگیا۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈروں اور کارکنوں نے سنیچر کو پارٹی ہیڈ کواٹر نوائے صبح سے شوپیاں شہری ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کیاجس دوران انہوں نے بینر اور پلے کارڑ اٹھا رکھے تھے جن پر شوپیاں شہری ہلاکتوں اور کھٹوعہ سانحہ کے مرتکبین کو سزا دینے کے نعرے درج تھے۔ پارٹی جنرل سیکریٹری اور ممبر اسمبلی خانیار علی محمد ساگر کی قیادت میں احتجاجی مظاہرین نے مخلوط سرکار کے خلاف جم کرنعرے بازی کی اور راج بھون کی طرف پیش قدمی کی۔ احتجاجی مظاہرین نے تاہم وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر نعرے لگائے ۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے علی محمد ساگر، چودھری محمد رمضان ، ناصر اسلم وانی اور این سی لیگل سیل کے چیئرمین اسحاق قادری نے خطاب کرتے ہوئے آصفہ کے قاتلوں کو فوری طرف پر سزا دینے کا مطالبہ کیا اور اس بات کی بھی مانگ کی کہ اس وحشیانہ اور سفاکانہ فعل کے پیچھے کارفرما مقاصد بھی بے نقاب کئے جائیں۔ ساگر نے کہا کہ اگر اپوزیشن نے اسمبلی میں زور دار مہم شروع نہ کی ہوتی تو حکومت نے اس کیس کو کب کا گول کردیا ہوتا۔ انہوں نے کہا ’’ قاتل کے حق میں دو وزراء کی شمولیت شرمناک اور افسوسناک بات ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومتی سطح پر اس گھناونے جرم کی پشت پناہی ہورہی ہے‘‘۔ساگرنے کہا کہ جو انکشاف کرائم برانچ نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں پیش کئے ہیں وہ انتہائی تشویشناک ہیں اور اگر حکومتی سطح پر اس کا سنجیدہ نوٹس نہیں لیا گیا تو مستقبل میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہونے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں میں ہندو ایکتا منچ کی طرف سے احتجاجی ریلیاں منعقدکرانے میں کلیدی رول ادا کرنے والے سجنی رام کے بارے میں جو سنگین نوعیت کے انکشافات کئے گئے ہیں، وہ محکمہ مال کا ریٹائر آفیسر ہے اور اِس وقت آر ایس ایس کا سرگرم کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اُس جگہ کا نگران بھی ہے جس جگہ مقتول آصفہ کیساتھ 7دن تک زیادتی کی گئی اور پھر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ شوپیان گذشتہ2ماہ میں ہوئے معصوموں کی خونریزی کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ساگر نے کہا کہ شوپیان معاملے میں بھی حکومت کا رول منفی رہاہے۔ انہوں نے کہا’’پہلے پی ڈی پی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دو بار اسمبلی میں شوپیان معاملے میں تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی اور یہ بھی کہا کہ انہوں نے مرکزی وزیر داخلہ سے بھی اجازت طلب کی ہے اور 20روز کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کا اعلان کیا، لیکن دو ماہ گذر گئے اور قتل عام کا دوسرا واقعہ بھی پیش آیا ، جس میں 4بے گناہ نوجوان جانوں سے ہاتھ دو بیٹھے، ابھی تک وزیر اعلیٰ کے اعلان کا کچھ نہیں ہوا‘‘۔ساگر نے کہا کہ الٹا ریاستی حکومت نے عدالت عظمیٰ میں یہ دلیل پیش کی کہ قتل عام میں درج کئے گئے ایف آئی آر میں کسی بھی فوجی افسر کا نام درج نہیں ہے۔ انہوں نے شوپیان میں 27جنوری اور 4مارچ کو شہری ہلاکتوں کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حقائق کو منظر عام پر لایا جانا چاہے۔ احتجاجی ریلی میں پارٹی کے ممبرانِ قانون سازیہ ایڈوکیٹ محمد اکبر لون، علی محمد ڈار، قیصر جمشید لون، شیخ اشفاق جبار، شوکت حسین گنائی، پارٹی لیڈران عرفان احمد شاہ، پیر آفاق احمد، جاوید احمد ڈار، تنویر صادق، جنید عظیم متو، سلمان علی ساگر اور سمیر احمد بٹ سمیت دیگر لوگ بھی موجود تھے۔