وزیراعظم کا پیغام اور ریاست کے گائو رکھشک

وزیراعظم نریندر مودی نے کو اپنے ماہانہ خطاب ’’من کی بات ‘‘میں صاف صاف لفظوں میں کہا کہ مذہب کے نام پر کسی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ نام لئے بغیر وہ چند روز قبل ہریانہ میں ایک دھرم گورو کو سزاء سنائے جانے کے خلاف بھڑکے تشدد، جس میں32افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے اور کروڑوں روپے کی املاک نذر آتش کر دی گئیں، کی طرف ارشارہ کر رہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ تین برس قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت بھر میں دائیں بازو کی انتہاپسند جماعتوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوئے کہ انہوں نے چہار اور اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کے خلاف مذہب کے نام پر مختلف بہانوں سے تشد د کا بازار گرم کر دیا اور گورکھشا کے نام پرلوگوں کو گھسیٹ کر ہلاک کرنے کے درجنوں واقعات سامنے آئے جس کی وجہ سے انگریزی کا لفظLyuchingبمعنی میں گھسیٹ کر ہلاک کرنا، اس پیمانے پر یہ استعمال ہو اکہ اب اسے اُردو اور ہندی زبانوں میں بطور مترادف کے استعمال کیا جانے لگا اور متعدد قلمکاروں نے ان عناصر پر یہ الزام لگایا کہ وہ ہندوستان کو’’ لنچستان‘‘ بنانے پر مصرہیں۔ تشدد کے ان واقعات کےلئے آئے روز نت نئے بہانے تراشنے کی کوششیں کی گئیں، جن میں خاص طور سے کئی واقعات ایسے پیش آئےجہاںبیف لے جانے کے شبہہ میں متعدد لوگوں کازدکوب کیا گیا اور ان واقعات میں تشدد کا مرکزی نشانہ مسلمان بنے۔ یہاں تک ٹرین میں سفر کرتے ہوئے مسافروں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ وزیراعظم نے اگرچہ ماضی میں بھی کئی مرتبہ مذہبی رواداری کو ہندوستان کی بنیادی طاقت قرار دیا ہے، تاہم روز گرشتہ جس طرح واضح اور دو ٹوک الفاظ میں وہ ایسے عناصر سے مخاطب ہوئے ہیں، اسکے بعد انتظامی اداروںکے لئے ایسے واقعات کی پردہ داری کرنے کی یا ایسے عناصر سے نرمی برتنے کی کوئی گنجائش باقی نہیںرہتی۔ جہاں تک ریاست جموںوکشمیرکا تعلق ہے  تو یہاں بھی جموں خطہ کے کچھ حصوں میں اس مزاج کو فروغ دینے کی دانستہ اور متواتر کوششیں ہوتی رہی ہیں، جس کے نتیجے میں کئی تشدد آمیز واقعات سامنے آئے ، جن میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ایسے واقعات میں خانہ بدوش بکروالوں کوموسمی ہجرت کے دوران نشانہ بنانے کا بدترین مظاہرہ بھی شامل ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف بروقت اور سنجیدہ کاروائی نہ ہونے کی وجہ سے انکے حوصلے بدستور بلند ہیں اور وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ ایک انتہائی رنجدہ واقع ہے کہ ایک طرف جب وزیراعلیٰ کا یہ اظہار سامنے آرہا تھا تو دوسری جانب راجوری میں ایک معمر شخص کو گو رکھشکوں کے برگیڈ کی جانب سے بے دردی کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس معمر شخص کا لہو لہاں جسم اس لاقانونیت اور مجرمانہ ذہنیت کا کھلا اعلان ہے، جس کی دنیا کے کسی قانون میں اجازت نہیں۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اس امر کی وضاحت کی کہ مذہب کے نام پر تشدد کی آئین اور قانون میں کوئی گنجائش نہیں اور اسے کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ دریں حالات راجوری کا واقع ہماری سرکار کےلئے چشم کُشا  ہونا چاہئے ۔ اگر چہ انتظامیہ نے کاروائی کرکے ایک حملہ آور کو گرفتار کیا ہے لیکن باقی ماندہ مجرمین ابھی بھی آزاد گھوم رہے ہیں، لہٰذا ا س امر کی ضرورت ہے انتظامیہ معالے کو سنجیدگی کے ساتھ لیکر حملہ آوروں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں کسی قسم کا دقیقہ فروگزاشت نہ کرے، کیونکہ پیر پنچال اور چناب خطے میں مقیم ایک بڑی آبادی مال مویشی پالنے انکی تجارت سے وابستہ ہے،جسے چھوٹے چھوٹے بہانے بنا کر تشدد کا نشانہ بنایا جائےتو یقینی طور پر یہ صورتحال کسی وقت سنگین نتائج پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ حکومت کو اس صورتحال کا سنجیدہ نوٹس لیکر گائو رکھشا کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے والے منظم عناصر اور ان کے پشت پناہوں کے خلاف سنجیدگی کے ساتھ کاروائی کرکے وزیراعظم کے گفتار کو کروار میں بدلنے کی سعی کرنا چاہے۔