دنیا بھر میںگذشتہ دو سال سے جاری کرونا قہر کی تباہ کْن صوت حال نے اب نہ صرف ہر ذی حس انسان بلکہ ہر خواندہ و ناخواندہ اورغافل و جاہل کو بھی اس بات کا قایل کر دیا ہے کہ کرونا کی وبائی بیماری کے خاتمہ کا وقت مقرر نہیں۔ اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے چونکہ ابھی تک ایسی کوئی ٹھوس یا کارآمد ویکسین ایجاد نہیں ہوسکی ،جس کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جاسکے کہ چند دنوں کے اندر مریض تندرست و تواناہوسکتا ہے۔ اس لئے محققین کی آرا کے مطابق اس بیماری کے علامات ظاہر ہوتے ہی لوگوں کے لئے اب بخار چیک کرنا اتنا ضروری نہیں جتنا کہ آکسیجن لیول چیک کرنا لازمی ہے۔آکسیجن لیول کی جانچ سے ہی اس بیماری میں ملوث شخص کو پتہ چل پاتا ہے کہ اْسے ہسپتال میں داخل ہونے کی ضرورت ہے یا گھر میں ہی آئیسولیٹ ہونے کی۔جس شخص کی آکسیجن لیول 80 سے 70 فیصد ہو رہی ہے تو اْسے لازمی طور پر طبی امدادکی ضرورت ہوگی یعنی اْسے ہسپتال میں داخل ہونا پڑے گااور اگر کسی کی آکسیجن لیول 90فیصد سے کم نہیں تو اْس کے لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اْسے زیادہ سے زیادہ احتیاط کے دائرہ میں رہنے کی ضرورت ہو گی۔ وہ اپنے گھر میں ہی آئیسولیٹ رہیںاور اپنی آکسیجن لیول چیک کرتے رہیں، اپنی غذا کا خیال رکھیں، زیادہ متنفر، غمزدہ اور وہم یا وسوسے میں مبتلا نہ رہیں بلکہ خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف اور بے فکر رکھنے کی کوشش کریں۔ وہ آیسولیشن کے دوران اپنے آپ قید ی نہ سمجھیںیا ناحق محبوسی کی حالت میں ذہنی دبائو کا شکار رہیں بلکہ پْر اعتمادی سے کورونا کو شکست دینے کے لئے اپنے آئیسولیشن کے دوران خود کو مصروف رکھیں، کوئی تخلیقی کام کریں، کتابیں پڑھیں، اپنے پیاروں سے رابطوں میں رہیں، انٹرنیٹ استعمال کریں، طنز و مزاح کی وڈیوز دیکھیںاور اگر ضرورت پڑے تو ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ادویات کا استعمال بھی کریں، ایک ہفتہ کے اندر ایسے اشخاص اپنی نارمل زندگی میںلوٹ آئیں گے۔یہ باتیں راقم یہاں نہ صرف اپنے تجربے کی بنیاد پر درج کررہا ہے اور مجھ جیسے بے شمار لوگوں کا بھی یہی تجربہ کامیاب ثابت ہوچکا ہے جو اس بیماری کا شکار ہونے کے بعد اپنی نارمل زندگی میں واپس لوٹ کر اپنے کام کاج میں مگن ہوچکے ہیں۔ یا د رکھئے کہ اس بیماری میں مبتلا صرف آپ ایک نہیں۔لاکھوں اور کروڑوں لوگ ہیں اور پوری دنیا اس بیماری سے لڑ رہی ہے۔ اس لئے ہم سب کو مل اس بیماری کا سوچ اور سمجھ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے اور اپنی زندگی گزارنے کا ایک نیا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔کیونکہ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرچکی ہے کہ اب زمین پر موجود انسان کو اس بیماری سے بچنے یااس سے محفوظ رہنے کے لئے جہاں ایک لمبے عرصے تک احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا پڑے گا وہاں جسم اور جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے اپنا روزمرہ زندگی کا کام کاج بھی محدود اور مشروط دائیروں میں رہ کر کرنا ہوگا۔
ان دنوں کوروناوبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے لیکن اپنے ملک میں عوام جتنے بے بس ہیں ،شاید ہی دنیا کے کسی اورخطے کے باسی ہوں۔ یہاں کے سسٹم اور نظام صحت پر بے اعتباری کا یہ عالم ہے کہ بیماروں کی ایک بڑی تعداد اس وجہ سے گھروں میں اذیت ناک صورتحال سے دوچارہے کہ اْنہیں یہ شک ہے کہ اسپتال جانے کی صورت میں اْن کی موت یقینی ہے کیونکہ ایک طرف جہاں ہسپتالوں میں جگہ نہیں ہے وہیں آکسیجن بھی نایاب ہے۔اس پر مستزاد یہ کہ انہیں اگر ٹی بی،دمے،سرطان ،امراض قلب سمیت دیگربیماریاں لگی ہوں تو اْن تمام بیماریوںکو صَرف نظر کرتے ہوئے اْنہیں کورونا وارڈ میں ڈال دیا جائیگا ،لہٰذااللہ یا بھگوان ہی کے آسرے پر گھر پر ہی پڑا رہنے کو ہی فوقیت دی جاتی ہے۔ اس وباکے دوران جس طرح بیروزگاری و غربت میں اضافہ ہواہے،اسی تناسب سے ستم گروں نے مہنگائی کا طوفان بھی برپا کررکھاہے،یوں غریب کی جو حالت ہے وہ صاف ظاہرہے لیکن حکمران طبقات ایسے میں ذخیرہ اندوزوں اور مہنگائی مافیا کے دراز ہاتھ روکنے اور نظام صحت پر عوامی اعتماد بحال کرنیکی کوئی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ ہر کوئی تو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کی دوڑیں لگا رہا ہے ، وہ چاپلوسی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانیکی کوشش میں ایسابازار گرم کردیتے ہیں کہ بس کوئی اورآواز سنائی ہی نہیں دیتی۔اپنے اس جموں و کشمیر میں تو عید سادگی سے منائی جانے کی اپیلیں بھی ہوئیں،ایسی اپیلیں کرنے والے چونکہ خود عیش وعشرت کی زندگی گزارتے ہیں،اس لئے انہیں یہ پتہ ہی نہیں ہوتاکہ غریب کی تو ہر عید ہی سادہ ہوتی ہے،بلکہ یہ کہنا درست ہے کہ اپیلیں کرنے والے اور ان کے ہمنوائوں کو سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود گویاوہ ہر موقع کی طرح وباکی اس صورتحال کو بھی غریب عوام کا تمسخر اْڑائے بغیر مزہ نہیں آرہا ہو۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک نظر نہ آنے والے کرونا کیڑے کی یلغار سے تمام دنیا مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔تاحال کوئی نہیں بتا سکتا کہ اس پر قابو پانے کی کوئی ٹھوس ویکسین یا کسی اور شکل میں کوئی کارآمد دوائی کب تیار ہو گی۔ کرونا کا یہ کیڑا اب تک قریباً چالیس لاکھ انسانی جانیں نگل چکا ہے اور کوئی نہیں جانتا کے یہ مزید کتنی جانوں کو نگل لے جائے گا اورپھر اس وائرس کے خاتمہ کے بعدہماری یہ دنیا کیسی ہو گی،اس کے متعلق بھی کوئی حتمی رائیظاہر نہیں کی جاسکتی ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے جدھرانسانی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں وہیں اِس نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔اس وایئرس کی وجہ سیدور حاضر کے سب سے بڑے ظاقتور ملک امریکہ کے سٹاک ایکسچینج کی پوزیشن زمین بوس ہوکررہ گئی ہے۔پیٹرولیم کی قیمت تاریخ کی کم ترین سطح تک گر گئی ہیاور تیل کی قیمتوں میں بہت حد تک کمی آگئی ہے۔ ہرطرح کا نظامِِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔کارو باری ادارے،تعلیمی و طبی شعبے اور زندگی سے منسلک تقریباً تما م شعبے بْر ی طرح متاثر ہوچکے ہیں،یہاں تک کہ ہر قوم کے دینی و مذہبی معاملات بھی اثر انداز ہوئے ہیں۔ بیشتر ممالک میں لاک ڈاون کا سلسلہ جاری ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ آمدرفت اور تجارت کے روابط لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔جس کی وجہ سے وہ غریب ممالک جو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ،مزید دْھنس کر رہ گئے ہیں۔ اگرچہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بیشتر یورپی ممالک سمیت مشرق وسطیٰ میں گذشتہ سال کے مقابلے میں شرح اموات میں کمی ہو رہی ہے مگر بھارت اور اسکے پڑوسی ملک پاکستان میںمرنے والے لوگوںشرح میں اضافہ ہورہا ہے۔بھارت کی حالت تو انتہائی خوفناک اور لرزہ خیز ہے،جس میں جموں وکشمیر بھی شامل ہے۔ملک میں پچھلے دو ہفتوں سے روزانہ شرح اموات ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار تک کے قریب ہے جبکہ غیر سرکاری حلقوں کے مطابق بھارت میں روزانہ مرنے والوں کی تعدا اس سے کئی گنا زیادہ ہے،ساتھ ہی غیر ملکی ایجنسیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی حکومت مختلف مصلحتوں کے تحت ملک میں کرونا مریضوں کی اموات کی اصل تعدا د اس لئے ظاہر نہیں کرتی کہ انتظامیہ کی غفلت اور ناکارہ کارکردگی کاپردہ فاش نہ ہو سکے لیکن شمشان گھاٹوں اور قبرستانوں کی لرزہ خیز صورت حال اور دریاوئوں میںتیرتی انسانی لاشیں بخوبی حقائق سے پردہ اٹھاتی رہتی ہیں۔چنانچہ دنیا بھر کے بیشتر ملکوں میںخستہ حال معاشی صورت حال کے پیش نظر اور لوگوں کی مالی بدحالی کے پسِ منظرمیں بیشتر حکومتوں نے لا ک ڈاون میں نرمی لاتے ہوئے چھوٹے بڑے تاجروں کو احتیاتی تدابیر کے ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔تاکہ زندگی کا کسی نہ کسی حد تک کاروبار چلتا رہے۔ چنانچہ مختلف ممالک کی طرف سے جتنی بھی ویکسینز تیار کی جاچکی ہیں ،اْن کا استعمال پچھلے چار مہینوں سے ہورہا ہے ،ان ویکسینوں کاعام لوگوں تک پہنچنے میں کافی وقت درکار ہے کیو نکہ جب تک دنیا بھر کی تقریباً آٹھ ارب آبادی تک فرداًفرداً اس ویکسین کی کم از کم دودو ڈوزِز نہ پہنچ پاتیں تب تک اس بیماری سے بچنے کا واحد حل خود کو احتیاتی تدابیر کے ساتھ محفوظ رکھنے میں ہی مضمر ہے۔گذشتہ برس اس بیماری کی پہلی لہر سے لڑتے ہوئے دنیا بھر میں جہاں بہت سارے ڈاکٹرز اور طبی شعبوں سے منسلک دوسرے لوگوںنے فرنٹ لائن پر آکر کرونا زدہ لوگوں کی جانیں بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں وہیں اب کرونا وائرس کی دوسری اور تیسری یلغارجو ماہرین کے مطابق پہلے سے زیادہ شدید ہے، میں بھی ڈاکٹر اور طبی عملے کے لوگ اپنے فرض کی انجام دہی میںاپنی زندگی کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔جبکہ اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی ا مداد اور دل جوئی کے لئے کام کرنے والے بیشتر رضا کار نہ طبیعت کے مالک لوگ تواتر کے ساتھ اپنی جانوں کی بازی لگاکر کر خدمت خلق کاناقابل فراموش رول نبھانے میں مصروف ِعمل ہیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کووڈ _19 کے بحران نے صحت عامہ کی خدمات میں معاشرتی تفاوت کو بھی بے نقاب کردیا ہے، جہاں دنیا کی 80 فیصد آبادی کے لئے کسی قسم کا سماجی تحفظ (Protection Social Comprehensive ) میسر نہیں ہے۔ سماج کے دبے کچلے طبقات اور معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے تئیں معاشرتی تفریق کی کئی مثالیں حکومتی اداروں کی سطح پر دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ بھی تو سچ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عام انسانی زندگی کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنے منافع کو ہر چیز کے اوپر رکھتا ہے۔یہ فطری طور پر استحصال کرنے والا اور محنت کش طبقہ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنے والا نظام ہی ہے جو ایک وبائی بیماری کے بیچ انسانی جانوں کی قیمت پر ’نفع کمانے کے مواقع‘ تلاش کرتا ہے۔ آج، دنیا بھر میں لاکھوں کارکنان اس وائرس کا شکارہیں کیونکہ وہ نہ تو بیماری کی رخصت کے مستحق ہیں اور نہ ہی کام سے غیر حاضر رہنے کے متحمل۔ لاک ڈائون پر مجبورسرمایہ دارانہ معیشتیں خفیہ طور پر منافع کمانے کے لئے کمر بستہ ہیں۔غور کرنے والی بات ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا کے لئے کس قدر مناسب ہے کہ اس مقصد کے لئے خیرات میں دی جانے والی کوئی بھی رقم اس کی خامیوں کو چھپا نہیں سکتی۔ آج دنیا کے پاس سب سے زیادہ انسانی وسائل تو ہیں لیکن اس انسانی وسائل کے ذخیرے کو اس بیماری کے خاتمے کے لئے مناسب طریقے پر استعمال میں نہیں لایا جاتا بلکہ تسلسل کے ساتھ ہر کوئی اپنی پاور اور جنگ و جدل کے ذرائع وسیع کرنے پرزیادہ تر انسانی اور مالی وسائل استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔حالانکہ کورونانے دنیا کیلئے اس نئے ماحول میںنئی ضروریات کو بھی جنم دیا ہے۔نئے وبائی امراض کے خطرات سے انسانوں میں ایک دوسرے سے خیر سگالی طور پر ہاتھ ملانے،گلے ملنے کے قدیم روایتی طریقے اب ختم ہونے کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔خیر سگالی کے اظہار کے لئے اب انسانوں کو کون سے متبادل طریقوں پر عمل کرنا پڑے،اس پر ابھی تک کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے۔دنیا میں قدرت کا توازن برقرار رکھنے کا اپنا ایک نظام ہے اور اس نظام سے اب مزید چھیڑ چھاڑ کرنے کی دن بہ دن گنجائش کم ہوتی جارہی ہے جبکہ اس بات کا بھی عندیہ مل رہا ہے کہ قدرت کے توازن سے مزید چھیڑ چھاڑ کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی شاید انسان میں قوت ہی موجود نہیں ہوگی۔
کرونا کے دوران بھی مْلکِ بھارت میںجو کچھ بھی ہوتارہا، اْس کے سبب ملک کی معاشی پالیسیاں بْری طرح سے ناکام ہو کر تباہی لے آئی ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے خلاف جارحانہ فیصلوں ،قوانین کا نفاذ اور دیگر اقدامات کے ساتھ کسانوں کی تحریک کے تئیںغیر منصفانہ پالیسیوںکے خلاف بد ظْنی کی جو فضا چھائی رہی،وہ بھی ملک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی۔ ملک میں اپوزیشن کی طرف سے کوئی مہم جوئی نہیں ہو پائی ہے جبکہ کورونا نے عوام کے سامنے ان سب حوالوں سے حکومت کی جواب دہی بھی ختم کردی ہے اور تاحال سیاست اور صحافت سے بھی یہ موضوعات غائب ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جاری آہ و فغاں کی کیفیت کے باوجود اقتدار کے ایوانوں میں بظاہر سکون اور اطمینان تو نظر آتا ہے لیکن غیر ملکی اخباری اطلاعات او ر غیر ملکی حکمرانوں کی آرا سے ملکی حکمران اضطرابی کیفیت میں ضرور مبتلا ہیں۔
کرونا کے اس قہر سے بچنے یا اس پر قابو پانے کے لئے عالمی سطح پر جو سوچ او ر اپروچ منظر عام پر آیا ہے اس میںیکسوئی کا فقدان ہے۔ اس میںاعلیٰ اقدار ،نیک جذبات ، پاکیزہ اصول وروایات اور ٹھوس مقاصد و اہداف کے پہلو غایب ہیں،جس سے عیاں ہو رہا ہے کہ کرونا کا قہر بھی دورِ حاضر کے گمراہ انسان کی کم ظرفی ،رذالت،طبقانیت،رنگ و نسل ،منافرت اور تفریق کو مٹا نہیں پارہا ہے جس کی بدولت آج ساری دنیاعذاب میں مبتلا ہے۔
�����