ندیم خان ،بارہمولہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی عبادت و بندگی کے متصل بعد انسان کو والدین کیلئے حُسن سلوک کا حکم دیا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق ومالک تو رب کائنات ہے ،جس نے زمین بنائی،ہوا،پانی،سورج،چاند، ستارےوغیرہ پیدا کیے۔ آسمان سے بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریاتِ زندگی زمین سے وابستہ کر دیں اور انسان کی پیدائش اور پرورش کا ظاہری سبب اسکے والدین کو بنایا، ماں راتوں کو جاگ کر بچے کے اپنا آرام اپنے بچے پر قربان کرتی ہے اور باپ اپنے بیٹے اور اسکی ماں کی اخراجات پورے کرنے کیلئے دن بھر محنت و مزدوری کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اُنکی اولاد کیلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھا ہوتا تو یقیناً بچہ کی صحیح معنون میں پرورش و تربیت نہ ہو پاتی، اب اگر یہی بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یار ومددگار چھوڑ دے،اُن کیساتھ حُسن سلوک سے نہ پیش آئے، انکی گستاخی و بے ادبی کرے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم کیا ہو سکتا ہے؟
دین ِ اسلام میں والدین کیساتھ حُسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے، اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق بیان فرمایا ہے۔یعنی مخلوقِ خدا میں حقِ والدین کو باقی تمام حقوق پر ترجیح دی ہے، اسی طرح حضور نبی کریمؐ نے بھی والدین کی نافرمانی کرنے اور اُنہیں اذیت و تکلیف پہنچانے کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے،والدین سے بدسلوکی کرنے والے بدنصیب کو رحمت الٰہی اور جنت سے محروم قرار دیا ہے۔ والدین اپنی اولاد کی راتوں کی نیندیں قربان کر کے پرورش کرتے ہیں۔ اولاد کی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے دنیا کے تمام سکھ چین گنوا دیتے ہیں۔ پھر وقت کی گھڑیاں گزرتی جاتی ہیں اور والدین اپنی اولاد کو جوانی کی دہلیز پر پہنچا کر ضعیفی لے لیتے ہیں اور مسکرا کر غریبی کے دن بھی کاٹ لیتے ہیں ۔لیکن افسوس صد افسوس وہی اولاد جوان ہو کر فرمان خدا وندی کو بھول جاتے ہیں اور بوڑھے ہوچکے والدین کو بوجھ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ مَیں آج ان بد نصیب اور نافرمان اولاد کیلئے قلم اٹھا رہا ہوں جو والدین کی قدر نہیں کرتے اور ان کی عظمت کو فراموش کر کے اپنی دنیا و آخرت دونوں کو ایک ساتھ خراب کر بیٹھتے ہیں اور وہیں یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ دنیا و آخرت میں ہمیں خوشیاں ہی خوشیاں ملیں اور ساتھ ہی اپنی اولادوں سے فرمانبرداری کی امید بھی لگا لیتے ہیں جبکہ اس بات سے خوب خوب واقف ہوتے ہیں کہ والدین کی خوشنودی میں ہی اللہ رب العزت کی خوشنودی ہے اور والدین کی ناراضگی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ آج کی اس ماڈرن ہوتی دنیا میں اولاد جن کے سہارے زندگی پاتی ہے، اسی ماں باپ کی بدولت جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں اور اولاد کو جوان دیکھ کر ماں باپ برسوں کے خوابوں کو پورا کرنے کی خواہش میں لگ جاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں ہی یہ خوشی کا دن میسر بھی ہوتا ہے کہ والدین اولاد کے سر پر سہرا سجا کر بڑے ارمان کے ساتھ بہو کا استقبال کرنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں مگر افسوس کہ چند روز ہی گزرنے کے بعد نفرت و عداوت کی ہوا چلنا شروع ہو جاتی ہے جو کہ بہت کم وقت میں زبردست آندھی طوفان میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے اور پھر بیٹا والدین کی فرمانبرداری سے مکر جاتا ہے، پلہ جھاڑ لیتا ہے، اللہ کی بخشی ہوئی والدین جیسی عظیم نعمت کو یکسر فراموش کر دیتا ہے اور بیٹا بیوی بچوں کو اپنے سر کا تاج سمجھ کر ماں باپ کو دوسروں کا محتاج بنا دیتے ہیں اور والدین کو ایک وبا سجھ لیتے ہیں کہ انہیں پاس رکھنا تو دور ٹھیک سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔جبکہ ارشاد نبویؐ عالیشان ہے کہ ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھ لینا کامل حج کا ثواب ہے۔ مگر اولاد، والدین کو ایسا بوجھ سمجھ لیتے ہیں کہ ان سے کنارہ کشی اختیار کر کے اپنے بیوی بچوں میں مگن ہو جاتے ہیں یا تو پھر اولڈ ایج بھیج کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ آج ہم جو کھیل ہم اپنے والدین کے ساتھ کھیل رہے ہیں، کل کو ہماری اولاد بھی بڑی ہو گی اور ہمارے ساتھ بھی یہ گیم کھیلا جا سکتا ہے۔ اپنے والدین کی عظمت کو پہچانیں کیونکہ آپ بھی صاحب اولاد ہوں گے اور اگر آپ نفرت کا بیج بوؤ گے تو پھل بھی کانٹے دار ہی پاؤ گے آپ کی اولاد بھی نافرمان ہو گی۔ ہر طرف نفرت اور عداوت ہو گی، وقت کافی تبدیل ہو چکا ہو گا الفت محبت کا نام و نشاں تک نہ ہو گا۔ ماں باپ آپ سے دور کوسوں دور ہو چکے ہوں گے ماں کی دعا اور باب کے سایے سے محرومی ہو چکی ہو گی۔ زندگی میں لا چارگی ہو گی لوگوں کے طنز اور طعنے تلخیاں آپ کو ڈس رہی ہوں گی۔ لوگ آپ کے نام پر تھوک رہے ہوں گے اور آپ صرف اور صرف احساس کا دریا بنے بیٹھے ہوں گے۔
جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین کے دل میں کیا کیا ارمان پیدا ہوتے ہیں۔ وہ اسی اولاد کی سلامتی اور لمبی عمر کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ اسی اولاد کی خاطر والد سارا دن گرمی اور سردی کی پرواہ کیے بغیر حلال رزق کی تلاش میں اپنے تمام خوابوں کی فکر کیے بغیر بس ایک ہی کام میں لگ جاتا ہے۔ وہ کام اولاد کے لیے اچھا رزق اور اچھی رہائش اور ہر وہ چیز جو انسانی زندگی کے لئے لازم ہوتی ہے۔ اس طرح والدہ بھی اپنی زندگی کا تمام سکون اسی بچے میں تلاش کرنا شروع کر دیتی ہے والدہ کی محبت اور پیار کی کوئی مثال نہیں۔ یہی والدہ اپنے ننھے سے بچے کی زندگی میں سکون کے لیے ہر طرح کی کوشش کرتی ہے کہ میرے بچے کو آرام اور سکون کی نیند میسر ہو سکے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ والدہ کی محبت نہ سردی اور نہ ہی گرمی دیکھتی ہے وہ اپنے لخت جگر کو چین و سکون کی نیند کے لیے پوری رات جاگ کر خشک بستر میسر کرتی رہتی ہے۔ اسی کے ساتھ یہ والدہ اپنے مزاجی خدا کی خدمت کا بھی پورا پورا خیال رکھتی ہے آخر ان ساری باتوں کو یہ جو بچہ ماں کی کوک میں دن رات پرورش پا رہا ہوتا ہے۔ وہ لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں جن کے سروں پر ماں باپ کا سایہ برقرار ہوتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کی اہمیت کو سمجھا جائے کیونکہ ان کے ساتھ حسن سلوک بھی افضل اور محبوب ترین اعمال میں سے ہے۔ والدین اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی انمول نعت ہوتے ہیں۔ والدین دنیا کی سب سے اہم ہستی ہیں۔ اولاد کی تعلیم و تربیت اور نگہداشت سے لے کر نشوونما تک والدین کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے تو یقیناً باپ جنت کا دروازہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کا وجود اولاد کیلئے باعث ِ خیر و برکت ہوتا ہے۔ والدین کی اولاد کے حق میں کی گئی دعائیں بارگاہِ الٰہی میں شرف قبولیت پاتی ہیں۔
رابطہ/6005293688
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)