سرینگر // وادی میں کتوں کے حملوں میں 20ہزار لوگوں کے زخمی ہونے کے باوجود بھی اس وباء کو قابو کرنے کیلئے سرکار سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ہے ۔شہر سرینگر میں اگرچہ کتوں کی نس بندی کیلئے آپریشن تھیٹر قائم کئے گئے ہیں تاہم قصبوں اور دیہات میں کتوں کی تعداد کو کم کرنے کیلئے سرکار کے پاس کوئی بھی منصوبہ نہیں ہے ۔اس دوران مونسپل حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ سال کے مقابلے میں اس سال کتوں کی تعداد میں 16ہزار کی کمی واقعہ ہوئی ہے اور روزانہ 10کتوں کی نس بندی بھی کی جاتی ہے ۔معلوم رہے کہ شہر کو چھوڑ کر وادی کے دیگر دیہات وقصبہ جات میں پچھلے ایک برس کے دوران آوارہ کتوں کے حملوں میں 15ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اسی طرح شہر میں ساڑھے 4ہزار لوگ کتوں کے حملوں میں زخمی ہوئے ہیںاور کل ملا کر وادی میں اس عرصہ کے دوران 20ہزارلوگوں کو کتوں نے کاٹ کر زخمی کیا ہے ۔ محکمہ صحت عامہ میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہر سال وادی میں قریب8سے 10 ہزار لوگ کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہوتے ہیں۔شہر ودیہات وقصبہ جات میں ایسا کوئی بھی گلی نکڑ نہیں جہاں ان کا راج نہ ہو ۔ یاد رہے کہ کئی برس قبل سرکار نے سرینگر شہر میں آوارہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو کم کرنے کیلئے کتوں کی نس بندی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کیلئے اپریشن تھیٹر تیار کیاگیا تاہم وادی کے سوپور ، بارہمولہ ، ، پٹن ، اوڑی ، کپوارہ ، لولاب ، سوگام ، بانڈی پورہ ، گاندربل ، کنگن ، بڈگام ، خان صاحب، چرار شریف ، پلوامہ ، شوپیاں ، کولگام ،اننت ناگ اضلع کے قصبوں اور دیہاتوں میں کتوں کی نس بندی کیلئے کوئی بھی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں اور ہر ضلع میں کتوںکی بڑی تعداد موجودہے ۔وادی میں کتوں کے حملوں میں زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ لگایا جائے تو ہر سال کتوں کے حملوں میں 8سے10ہزار لوگ اوسطا زخمی ہوتے ہیں ۔سرکاری ذرائع کے مطابق وادی میں سال2017.18میں دسمبر کے مہینے تک اوارہ کتوں کے حملوں میں 20098افراد زخمی ہوئے ہیں جن کا علاج ومعالجہ وادی کے مختلف ہسپتالوں میں کیا گیا ہے ۔سرکاری ذرائع کے مطابق سرینگر ضلع میں سب سے زیادہ یعنی 4454افراد اس عرصے کے دوران کتوں کے حملوں میںزخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ اننت ناگ میں 2492، بڈگام میں 2762، بانڈی پورہ میں 742، بارہمولہ میں 3220، گاندربل میں 1119، کرگل میں 11، کولگام میں 1839، کپوارہ میں 256، لداخ کے لہہ علاقے میں 797، پلوامہ میں 1936شوپیاں میں 470افراد کتوں کے حملوں میں زخمی ہوئے ہیں ۔ان میں سے 6825افراد کا علاج ایس ایم ایچ سرینگر میں کیا گیا اور باقی افراد کا علاج ومعالجہ وادی کے دیگر علاقوں میں کیا گیا ۔ماہر حوانیات ڈاکٹر انجم نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ محکمہ انیمل ہسبنڈی کا کوئی بھی رول نہیں ہے جو ایم او یو دستحط ہوئے ہیں وہ سٹیٹ انیمل ویلفر بورڈ اور سٹیٹ مونسپل حکام کے درمیان ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جموں کے روپ نگر علاقے میں پچھلے 6ماہ میں 12ہزار کتوں کی نس بندی کی گئی اور ہر ماہ میں 2ہزار کتوں کی نس بندی وہاں کی جاتی ہے تاہم کشمیر میں یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ٹارگٹ یہ ہے کہ ایک سال میں 60فیصد کتوں کی نس بندی ہونی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ ہر ماہ میں پانچ ہزار کتوں کی نس بندی کی جانی چاہئے اور اگر اس ٹارگٹ کو سال میں مکمل نہیں کیا گیا توکتوں کی تعداد میں پھر سے اضافہ ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ سننے میں آیا ہے کہ ٹینگ پورہ میں سرکار نے کتوں کی نس بندی کیلئے ایک بڑے کلنگ کھولنے کا منصوبہ بنایا ہے جہاں پر بے روزگار 10سے 20ماہر ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی جائیں گئی جس کے بعد اس پر کام شروع ہو سکتا ہے ۔محکمہ انیمل ہسبنڈی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد یوسف چاپرو نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کتوں کی نس بندی کا کام مونسپل حکام کو سونپا گیا ہے لیکن وادی میں یہ کام سست رفتاری سے ہو رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جموں اور لداخ میں نس بندی کے کام میں تیزی لائی جا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مونسپلٹی کا یہ کلیدی رول بنتا ہے کہ وہ پولٹری اور گوشت کی دکانوں اور فورسز کے کمپوں سے نکلنے والی غذا پر روک لگائیں کیونکہ شہر دیہات میں ان جگہوں سے کتوں کو اچھی خاصی غذا ملتی ہے۔ مونسپل کمشنر سرینگر ریاض احمد وانی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ شہر سرینگر میں کتوں کی تعداد کم ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ سال شہر میں 49ہزار کتے تھے اور اب صرف 33ہزار کتے ہی شہر میں رہ گے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کتوں کی نس بندی کیلئے ایک الگ اپریشن ٹھٹر کام کر رہا ہے جہاں ہر دن 10کتوں کی نس بندی کی جاتی ہے اور کتوں کے حملوں میں بھی کمی واقعہ ہو رہی ہے ۔