وادی کشمیر فوجی چھاونی میں تبدیل کی گئی ہے

جموں//جموں وکشمیر میں جاری نامساعد حالات ، سیاسی خلفشار ، استقصادی اور معاشی بدحالی سے ریاست کے تینوں خطون کے لوگوں میں انتہائی غم و اندشہ اور بے چینی و غیر یقینیت شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہے۔ 1990کی طرح حالات نے کروٹ لی لیکن بدقسمتی سے مرکز میں سخت گیر حکران کشمیری عوام کے تئیں بے رخی اپنائے ہوئے ہیں۔ ان باتوں کا اظہار پارٹی کے معاون جنرل سیکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے شیر کشمیر بھون جموں میں پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں سے خظاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر مکمل طور پر ایک فوجی چھاونی میں تبدیل کی گئی ہے۔ خوف اور دہشت کا ماحول ہر طرف اس قدر برپا ہوا ہے کہ لوگ گھروں میں سہمے ہوئے ہیں۔ گویا ایک طرف مرکز کے RSSاور بی جے پی حکمرانوں نے ریاست کے لوگوں کو آئینی ، جمہوری اور مذہبی آزادی اور صحافت کے پلیٹ فارم سے محروم کیا گیا اور ریاست کو اس میں تبدیل کرکے اہل کشمیر کے عوام کے دلوں سے اعتماد اور بھروسہ چھین لیا ہے ۔ مرکز میں زمہ داری بی جے پی لیڈران بقول ان کے کہ 370اور 35-A کشمیریوں سے چھینا مودی کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ یہ بات نہ کشمیریوں نے قبول کی ہے اور نہ کریں گے۔ کشمیر کا مسئلہ ابھی حل طلب ہے اور ریاست نہ بھارت میں ضم ہوئی اور نہ ہوگی۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ وہ وقت ضائع کئے بغیر ریاستی عوام کو تمام آئینی اورجمہوری حق واپس کریں تب ہی ملک کی آزادی اور سالمیت قائم رہے گی۔ فوجی کمکوں میں اضافہ ، کمیونٹی ہالوں میں اضافی فوجی دستے رکھنا حالات کے ناسازہوئے کی کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈاکٹر کمال نے ہندو، مسلم، سکھ ، عیسائی اور بودھوں سے اپیل کی کہ وہ متحد ہوکر اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے کھڑا ہوجائیں۔ اقلیتیں غیر محفوط خصوصاً اہل کشمیر میں نوجوان پود کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھ کر تنگ و طلب کیا جارہا ہے ۔ آج ڈوگرہ، لداخی، کشمیری اور سکھ یک زبان ہوکر 35-A اور دفعہ 370کی واپسی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ صوبائی صدر جموں ایڈوکیٹ رتن لعل گپتا نے فرقہ پرستوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کی جو لوگوں کو مذہب اور زبان کے بلبوتے پر تقسیم کرتے ہیں۔