سرینگر//وادی میں اعصابی تنائو اور بوجھ کے نتیجے میں راست اقدام اٹھانے کا رجحان آئے دن بڑھ رہا ہے اور ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ ذہنی دبائو کے علاوہ سماجی سطح کی صورتحال کا بھی اس میں عمل دخل ہے۔پلوامہ سے تعلق رکھنے والے دو بچوں کے والد نے اسی روز اپنی زندگی کا خاتمہ کیا،جس روز بالی ورڈ کے ایک اداکار نے خود کو پھانسی پر لٹکا یا۔اگر چہ یہ فوری طور پر معلوم نہیںہوسکا کہ شہری نے کیوں انتہاہی اقدام اٹھایا تاہم ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ وادی میں اس طرح کے واقعات کا رجحان بڑھ رہا ہے اور خاص کر 1990کے بعد اس میں بڑی تیزی کیساتھ اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوںکے دوران متعدد ایسے واقعات سامنے آئے، جب نوجوانوں نے خاص طور پر انتہاہی اقدام اٹھایا۔ 20 مئی کو بمنہ میں ایک کمسن بچی نے خود کو پھانسی دی۔ 26مئی کو سوپور میں بھی اسی طرح کا ایک کیس سامنے آیا۔ جنوبی کشمیر کے ڈورو علاقے میں 11 جون کو ایک ڈرائیور نے اپنے ہی گھر میں خود کو پھانسی پر لٹکا یا جبکہ 21 جون کو ہندوارہ میں ایک بزرگ شہری نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔ یہ سلسلہ یہاں ہی نہیں رکا بلکہ اگست کے مہینے میں قریب10لوگوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔نفسیاتی اسپتال سرینگر میں تعینات کا ایک معالج کا کہنا ہے کہ گزشتہ2دہائیوں سے وادی میں خود سوزی کی شرح میں26گناہ اضافہ ہوا ہے۔انکا کہنا ہے کہ جہاں دو دہائی قبل خود سوزی کی شرح ایک لاکھ میں 0.5تھی وہیں یہ اب بڑھ کر13ہوگئی ہے۔اعداد وشمارکے مطابق گزشتہ 18برسوں میں وادی میں 25 ہزار لوگوں نے خود سوزی کی کوشش کی،جس میں 3ہزار کے قریب کامیاب بھی ہوئے اور ان میں سے زیادہ تعداد 17 سے25برس کے نوجوانوں کی تھی۔ ماہرین نفسیات کا تاہم کہنا ہے کہ ذہنی دبائو کے علاوہ سماجی سطح پر بے عزتی کے خوف سے بھی یہ رجحان پرئوان چڑ ھ رہا ہے۔قومی جرائم بیورو ریکارڈ کی2018کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر میں2018میں خود کشی کے کیسوں کی تعداد 330تھی،جبکہ2017میں انکی تعداد287تھی۔ وسطی کشمیر نشین ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر شبیر مجید کا کہنا ہے’’ دماغی صحت پر بات کرنا وادی میں بے عزتی سمجھی جاتی ہے،کیونکہ ہمارے اذہان میں بچپن سے یہ بات ڈالی گئی ہے اور کو تبدیل ہونے میں کچھ وقت لگے گا‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بے عزتی کا خوف دماغی صحت پر بھاری ہوتا ہے تو یہ کسی شخص کو راست قدم اٹھانے کیلئے مجبور کرتاہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اس رجحان کی وجہ سے وادی میں مختلف عمر کے لوگ خود کشی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمومی طور پر دو طرح کے مریض سامنے آتے ہیں،ایک وہ جن کے علاج میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے اور دوسرے درجے کے مریض ذہنی مسائل کے بارے میں بات نہیں کرتے،بلکہ وہ موٹاپے،سردرد،اور جوڑوں میں تکلیف کی بات کرتے ہیں،تاہم انکا جب طبی جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ ذہنی تنائو میں مبتلا ہیں۔ڈاکٹر شبیر مجید کا مزید کہنا ہے کہ وادی میں یہ بات بھی عام ہے کہ اگر ایسا مریض نفسیاتی ادویات کا استعمال کریگا تو اسے عمر بھر انکا ستعمال کرنا پڑے گا۔حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ماہرین تاہم وادی میں جاری غیر یقینی ماحول کو بھی اس کیلئے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ڈاکٹر شبیر کا کہنا ہے’’ گزشتہ ایک برس پر نظر ڈالی جائے تو،اسکول،کالج اور تعلیمی ادارے مقفل ہیں،تجارتی،کاروباری ادارے مجموعی طور پر بند رہے،اور لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغن رہی،جس کے نتیجے میں ذہنی تنائو میں اضافہ ہواہے‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ لوگ اندر ہی اندر غمزدہ ہیں،اور اس کا اظہار نہیں کرتے،جو ایک خطرناک صورتحال ہے۔سال2015میں کئے گئے کشمیر مینٹل ہیلتھ سروے میں کہا گیا ہے’’وادی میںقریب18لاکھ بالغ شہریوں میں ذہنی تنائو کے آثار نظر آتے ہیں،جن میں سے41فیصد لوگوں میں ممکنہ تنائو کے علامتیں بھی ظاہر ہوتی ہیں،تاہم26فیصد لوگوں میں چڑ چڑا پن اور19فیصد لوگوں میں دیگر ممکنہ علامات نظر آتی ہیں۔ ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ دماغی بیماری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں اردگرد کا ماحول، روز مرہ کی صورتحال، ازدواجی زندگی میں ناچاکی، رشتوں میں دوریاں، بینکوں کو قرض کی ادائیگی نہ ہونا، بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیم کا انتظام نہ کرنا اور غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گذارنے کے دوران خطرناک بیماریاں پیدا ہونا شامل ہے۔