وادی میں گھریلو تشدد کی زمینی صورتحال انتہائی خوفناک | متاثرہ خواتین سماجی بدنامی کے ڈر سے اپنی مشکلات بیان نہیں کرتیں

سرینگر//وادی میں گھریلو تشدد کے واقعات کی صورتحال کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیر میں گزشتہ ایک سال کے دوران مبینہ طور پر گھریلو تشدد کی وجہ سے متعدد اموات رپورٹ ہوئیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کشمیر میں گھریلو تشدد کے واقعات اصل میں رونما ہوئے واقعات  سے کم رپورٹ ہوئے ہیں کیونکہ ان واقعات سے جڑی خواتین سماجی بدنامی کی وجہ سے بیشتر واقعات کو رپورٹ نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا میں صرف وہی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جو متاثرہ کی موت پر ختم ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جموں و کشمیر میں خواتین کے خلاف جرائم کے حوالے سے مناسب تفتیشی طریقہ کار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فقدان ہے۔سپریم کورٹ وکیل اورجموں و کشمیر وومن اینڈ چائلڈ رائٹس کمیشن کی سابق چیئرپرسن وسندرا پاٹھک مسعودی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد گھریلو تشدد کا شکار ہے اور جہیز اس دشمنی کی ایک اہم وجہ ہے۔ن کا کہنا ہے’’ وہ تکلیف اٹھاتے ہیں گھٹن محسوس کرتی ہیں، یہاں تک کہ جب میں یہاں خواتین اور بچوں کے حقوق کمیشن کی سربراہی کر رہی تھی تو خواتین کے خلاف انتہائی بربریت کے کچھ معاملات میری نوٹس میں آئے۔‘‘ وسندرا مسعودی کا کہنا تھا’’اپنے دور میں، میں نے ایسے بے شمار مقدمات سے نمٹا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ متاثرہ کو انصاف ملے اور مجرموں کو قانون کا سامنا ہو۔ ‘‘ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں کے حقوق کمیشن کی سابق سربراہ کی حیثیت سے اپنے تجربے اور مشاہدے کے پیش نظر، میں حکومت کو اس کو دوبارہ قائم کرنے کی پرزور تجویز کروں گی کیونکہ پیش آمدہ صورت حال میں، اس مظلوم دوست ادارے کا یہاں موجود ہونا ضروری ہے۔ معروف خاتون وکیل کا کہنا تھا کہ گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کے پاس انصاف کے حصول اور راحت حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے اورکمیشن متاثرین کی سب سے بڑی امید تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ آزادانہ طور پر چل سکتے ہیں اور صفر خرچ پر اپنی شکایات درج کر سکتے ہیں اور اپنے مقدمات کے تیز رفتار فیصلے حاصل کر اسکتے ہیں۔احساس نامی رضا کار ادارے کی بانی سیکریٹری عزابیر علی کا ماننا ہے کہ گھریلو تشدد کے واقعات ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے ہوتے رہے ہیں تاہم، یہ دیکھا گیا ہے کہ وبائی لاک ڈان کے دوران ایسے معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا  چونکہ زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں  بیٹھے ہوئے تھے، اور آخر کار، بعض صورتوں میں، خواتین اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے ساتھ اپنے گھروں میں بند ہو گئیں  جو کبھی کبھی ان کے شوہر یا دیگر رشتہ دار بھی ہوتے تھے۔ انہوں نے کہا’’ میں وبائی مرض کے پھیلنے کے بعد سے ایسے بہت سے معاملات دیکھ چکی ہوں۔‘‘ ازابیر علی کا کہنا ہے ‘‘بدقسمتی سے، گھریلو تشدد کا شکار زیادہ تر خواتین بعض وجوہات کی بنا پر اپنی مشکلات بیان کرنے کیلئے سامنے نہیں آتی۔ ان میں سے کچھ مالی طور پر  پست ہوتی ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ، گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی زیادہ تر خواتین اس سے جڑی سماجی بدنامی کی وجہ سے اپنی مشکل کے بارے میں بات کرنے میں ہچکچاتی ہیں۔ ازابیر علی نے بتایا کہ، کچھ خواتین جو گھریلو تشدد کا شکار ہیں اور مکروہ تعلقات سے باہر آنا چاہتی ہیں ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دوسری ریاستوں کے برعکس، ہمارے یہاں کمزور خواتین کے لیے پناہ گاہیں نہیں ہیں۔اسسٹنٹ پروفیسرسوشیالوجی گورنمنٹ ڈگری کالج، بارہمولہ شائستہ قیوم نے بتایا کہ شادی اور خاندان کا ادارہ، جو ہر انسانی معاشرے کے بنیادی اداروں میں سے ایک ہے، کشمیر میں برسوں کے دوران ختم ہو گیا ہے اور آخر کار، ہم معاشرے میں ہر جگہ گھریلو تشدد کے واقعات سمیت متعدد مسائل دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا’’ہم نے زیادہ تر اخلاقی  اقدار کھو دی ہیں، جو ہمارے خاندانوں میں رشتوں کے وقار کو سہارا اور برقرار رکھ سکتی ہیں ۔شائستہ قیوم نے کہا کہ یہ ذہنیت شادی اور خاندان کو مزید ناکام بنا رہی ہے۔انہوں نے کہا ’’ اپنے مذہب کے رہنما اصولوں پر اعتماد کھونے سے، ہم اپنی روایتی اقدار کو بھی کھو چکے ہیں، لوگ مادہ پرست ہو گئے ہیں، پہلے لوگ زندگی بھر رشتوں میں رہنے کی نیت سے شادی کرتے تھے۔ لیکن آج کل شادیاں تصورات پر مبنی ہیں کیونکہ انفرادیت نے اجتماعی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ غیر ازدواجی تعلقات، جو گھریلو تشدد کی ایک بڑی وجہ بھی ہیں، اب ہمارے معاشرے میں ایک معمول بن چکے ہیں، اس صورتحال میں، میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں ان اقدار کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، جو معاشرے اور خاندانی نظام کے لیے معاون ہوں۔‘‘ماہر نفسیات، دماغی صحت کے صلاح کار لیلی قریشی کا کہنا ہے کہ عورت پر حملہ کرنا، یا اسے جسمانی نقصان پہنچانا خواہ اس کے والدین کے گھر ہو یا اس کے سسرال میں گھریلو تشدد کی بدترین شکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت پر تشدد یا ناانصافی کو نہ تو جائز قرار دیا جائے اور نہ ہی برداشت کیا جائے۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں روزانہ  ایسے واقعات کی ایک بڑی تعداد دیکھتے ہیں۔سماجی مسائل کے ماہر  ڈاکٹر میر سہیل رسول  نے بتایا کہ گھریلو تشدد کی سب سے زیادہ ظاہری وجوہات ازدواجی تنازعات سے لے کر مختلف سماجی، ثقافتی اور اقتصادی مسائل تک سبھی جانتے ہیں۔ تاہم، اس مسئلے کی اصل وجہ جاننے کے لیے، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ شادی اور خاندان کے معامالات کس طرح برسوں کے دوران مسلسل بگڑ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے’’اپنے مشاہدے کی بنیاد پر میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ کشمیر میں گھریلو تشدد کے حوالے سے زمینی حقائق خوفناک ہیں، سب سے بری بات یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال مزید شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔