محکمہ شیپ ہسبنڈری کے دعوے بھی سراب
سرینگر // جموں وکشمیر حکام اور مٹن ڈیلرس ایسوسی ایشن کے درمیان گوشت کی قیمتوں پر جاری رسہ کشی سے وادی میںگذشتہ 4ماہ سے گوشت نایاب ہوگیا ہے۔ گوشت فروخت کرنے والے تاجروں نے اگرچہ شہر سرینگر اور دیگر قصبوں اور دیہات میں گوشت فروخت کرنیکا سلسلہ شروع کیا تھا لیکن گوشت سرکاری نرخ ناموں کے مطابق نہیں بلکہ 600روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیا جاتا رہا جس کے بعد قصابوں کیخلاف کارروائیاں کی گئیں اور 26کیخلاف کیس درج کر کے انکی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس کے بعد مٹن ڈیلر غیر معینہ مدت کیلئے ہڑتال پر چلے گئے ہیں اور وادی کے شمال و جنوب میں کہیں بھی گوشت دستیاب نہیں ہے۔ادھرحکام کی جانب سے مقامی پیدوار کے جو دعویٰ کئے جا رہے تھے، اس کی بھی پول کھل گئی ہے۔محکمہ پشو پالن کا کہنا ہے کہ وادی میں اس وقت بکریوں اور بھیڑوں کی تعداد 17لاکھ کے قریب ہے اور اس میں سے 25فیصد کا استعمال گوشت کیلئے کیا جارہا ہے۔ مٹن ڈیلروں کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے گوشت کیلئے مقرر کی گئی قیمتیں انہیںمنظور نہیں کیونکہ صوبائی حکام کی جانب سے 4ماہ قبل وادی میں گوشت کی پرچون فی کلوقیمت480جبکہ تھوک قیمت450روپے مقرر کی گئی ہے۔ مٹن ڈیلروں اور حکام کے درمیان تنازعہ کھڑا ہونے کے بعد بیرون منڈیوں میں گوشت کی قیمتوں کا جائزہ لینے کیلئے دو کمیٹیاں بنائی گئیں جن میں ایک سرکاری اور دوسری کشمیر اکنامک الائنس کے توسط سے بنائی گئی۔کشمیر اکنامک الائنس کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے حکام کو جو رپورٹ پیش کی اس میں518روپے فی کلودرجہ اول گوشت بغیر اجڑی کا بریک اپ دیا گیاہے۔چند روز قبل کوٹھداروں اورحکام کے درمیان ہوئی میٹنگ میں کوئی بھی حل نہیں نکلا اور یوں وادی میں قصابوں کی سبھی دکانیں بند ہیں۔ ایک سرسری اندازے کے مطابق وادی میں ہر روز 40ہزار کلو گرام گوشت گروخت ہوتا ہے اور یوں روزانہ 20کروڑ کا کاروبار ہوتا ہے لیکن قریب 4ماہ سے زائد کے عرصت سے کاروبار بھی بند ہے اور لوگوں کو بالخصوص بیماروں کو بہت زیادی تکالیف کا سامنا ہے۔ادھر 70برسوں سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ کشمیر وادی میں اپنی مقامی پیدوار اچھی خاصی ہے اور ضرورت پڑنے پر محکمہ شیپ ہسبنڈی سامنے آتا ہے۔محکمہ شیب ہسبنڈی کے ڈائریکٹر عبدالسلام میر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ وادی میں 17لاکھ بھیڑ اور بکریاں ہیں جس میں سے 25فیصد استعمال میں لائی جاتی ہیں ،باہر کی منڈیوں پر دارومدار کے حوالے سے، انہوں نے کہا کہ یہاں اب زیادہ لوگ مال مویشی نہیںپالتے اور سرما بھی یہاں کا کافی سخت ہوتا ہے اس لئے یہاں مویشوں کیلئے چارہ وغیر بھی حاصل کرنے میں کافی دقتیں پیش آتی ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی 25فیصد مال کو مقامی سطح پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے اس سال 400یونٹوں کو منظوری دی گئی ہے اور اس سے کافی فائدہ ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پوری وادی میں قریب 80ہزار ایسے کنبے ہیں ،جو بھیڑ بکریاں پالتے ہیں، اور ان کے پاس 20سے 50اور کئی ایک کے پاس اس سے بھی زیادہ مال ہوتا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ مقامی مال زیادہ ستمبر اور اکتوبر میں دستیاب رہتا ہے اور اس وقت صرف شہر اور کچھ ایک علاقوں میں ہی قصابوں نے ہڑتال کی ہے اور باقی دور افتادہ علاقوں میں جو گوشت اس وقت دستیاب ہے وہ مقامی پیدوار ہے اور وہاں لوگوں کو آسانی سے گوشت مل رہا ہے ۔