سرینگر// یوم اطفال پر اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ وبائی بیماری کرونا کے نتیجے میں تباہ کن معیشت سے بچہ مزدوری میں اضافہ ہوا ہے،جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر میں بچہ مزدوری کی روک تھام کیلئے کوئی بھی جامع پالیسی نہیں ہے۔ معصوم بچوں کے ہاتھوں میں قلم اور کتابیں دینے کے بجائے اوزار تھمانے کے رجحان میں کرونا وبائی بیماری سے مزید نو عمر لڑکے محنت و مشقت اور مزدوری کے پیشے سے جڑ گئے ہیں۔ گزشتہ2برسوں کے دوران بیشتر اوقات کرونا لاک ڈائون سے جہاں وادی کی اقتصادی اور معیشی صورتحال بہت حد تک متاثر ہوئی اور گزشتہ زائد از دوبرسوں کے دوران’’ معیشت کو قریب50ہزار کروڑ روپے نقصانات‘‘ پہنچنے کے نتیجے میں معصوم بچوں نے قلم کو چھوڑ اوزاروں کو ہاتھ میں لیا۔ حقوق اطفال کیلئے سرگرم کارکن اورسیو دی چلڈرنز نامی غیر سرکاری رضاکار تنظیم سے جڑے شریف احمد کا کہنا ہے کہ کرونا لاک ڈائون سے دنیا بھر کے ساتھ ساتھ وادی میں معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی،جس کی وجہ سے بچہ مزدوری میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں اگرچہ حتمی اعداد شمار ابھی تک کسی بھی غیر سرکاری رضاکار تنظیم یا سرکار کی جانب سے سامنے نہیں آئے،تاہم آثار و قرائن اور تجربے کی بنیاد سمیت زمینی سطح پر اس کا ادراک کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرونا سے ہر ایک شعبے سے وابستہ لوگ متاثر ہوئے ہیںاور جن والدین کے پاس اپنے بچوں کو آگے تعلیم حاصل کرانے کے ذرائع نہیں تھے،انہوں نے ان کو کام پر لگا دیا۔ شریف کا کہنا ہے کہ سرکار کی جانب سے ان بچوں کی باز آبادکاری اور سماجی تحفظ سے چائلڈلیبر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔۔شریف احمد کا کہنا ہے کہ بچہ مزدوری سے متعلق کوئی بھی مستند اعداد شمار موجود نہیں ہیں،جس کی بنیادپر بچہ مزدوری پالیسی مرتب کی جاسکے۔ انہوں نے بتایا کہ سرکار سمیت دیگر غیر سرکاری رضاکار تنظیموں کو چاہے کہ وہ پیشہ وارانہ طریقے پر بچہ مزدوری کیلئے اعداد شمار جمع کریں۔ 1996میں مرکزی حکومت کی اسکیم’’ قومی چائلڈ لیبر پروجیکٹ‘‘ کو اس مقصد کے ساتھ متعارف کیا گیا تھا،تاکہ جموں کشمیر میں بچہ مزدوری کی وبا پر قابو پایا جاسکیں۔ اس اسکیم کے تحت محکمہ کو بچے کو ماہانہ150روپے کا وظیفہ فرہم کرنا تھا،جبکہ بنیادی تعلیم کے علاوہ ہنر کی تربیت سے بھی لیس کرنا تھا۔اس حوالے سے سرینگر کے پارمپورہ،فور شور روڑ،کرسو،راجباغ اور حبک سمیت دیگر علاقوں میں بچہ مزدوروں کیلئے11 خصوصی اسکول قائم کئے گئے تھے،جبکہ جن بچوں کو پہلے ہی مختلف کام کرنے کی جگہوں سے بازیاب کیا گیا تھا ،کو ان میں داخل کیا گیا تھا،تاہم بچوں کی طرف سے کام کرنے میںعدم دلچسپی نے اس اسکیم کو محدود کیا۔ محکمہ کے ایک افسر کا کہنا ہے’’ بچے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے نہیں،بلکہ اپنے کنبوں کی کفالت کیلئے کام کرتے ہیں،اور انہیں اس قدر رقم کی ضرورت پڑتی ہے،جس سے وہ اپنے کنبوں کی معاونت کے بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں۔ان کا کہنا تھا ’’ اپنے کنبوں کی کفالت کرنے اور ان مالکان،جو کہ انہیں کام پر رکھتے ہیں،کے خلاف کارروائی عمل میں لانے سے مسائل کا ازالہ زمینی سطح پر ممکن نہیں ہے،اور نا ہی اس سے کوئی حل برآمد ہوسکتا ہے۔ سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے راجسٹرار پروفیسر فیاض احمد نکہ کی طرف سے آزادانہ تحقیقات’’جموں کشمیر میں بچہ مزدوری،سماجی،معاشی اور اخلاقی پہلو‘‘ نے جموں کشمیر میں بچہ مزدورں کی تعداد کو2لاکھ50ہزار قرار دیا ہے،جبکہ2001میں ریاستی حکومت کی طرف سے مردم شماری میں بھی اس کی تعداد ایک لاکھ75ہزار قرار دی گئی ہے۔محکمہ لیبر کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کشمیر میں چائلڈ لیبروں کی تعداد سے متعلق کوئی بھی سروئے نہیں کیا گیا،اور ناہی کوئی معقول اعداد شمار موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے’’ غیر منظم شعبوں،جن میں قالین،دستکاری،پشمینہ،شالبافی اور روایتی خاندانی کاروبار کے تحت آزادانہ طور پر کام کر تے ہیں،کو بچہ مزدوری کے زمرے میں نہیں لایا جاتا۔‘‘ معروف قانون دان ایڈوکیٹ اعجاز ڈار کا کہنا تھا موجودہ وباء سے نظریں چرانے کے بجائے حکومت کو بچہ مزدوری کی روک تھام کیلئے ایک مربوط پالیسی لیکر سامنے آنا چاہے،تاکہ اس کو جڑ سے ہی ختم کیا جائے۔‘‘ ان کا کہنا تھاکہ سرکار کو ان بچوں کے مالیاتی فوائد کیلئے پالیسی مرتب کرنی چاہے،جہاں انہیں تعلیم کے علاوہ تربیت بھی فرہم ہو۔
وادی میں بچہ مزدوری میں اضافہ
