سرینگر //کشمیر وادی میں سالانہ 206.43میٹرک ٹن اخروٹ کی پیدوار ہونے کے باوجود بھی اس صنعت سے وابستہ افراد پریشان ہیں کیونکہ گذشتہ کئی برسوں سے کشمیر اخروٹ کی گری کی قیمتوں میں گراوٹ دیکھنے کو مل رہی ہے ۔پچھلے سال کے مقابلے میں رواں برس گری کی قیمتوں میں 200روپے کی کمی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔تاجروںکا کہنا ہے کہ بیرون ریاست کی منڈیوں میں امریکہ اور چلی سے آنے والی گری نے کشمیر ی ’’گری ‘‘کو بازاروں سے بے دخل کیا ہے جس کے نتیجے میں مقامی باغ مالکان اور تاجر وں کے کاروبار پر خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔کشمیری اخروٹ کی گری کی قیمتوں میں مسلسل کمی کا اندازہ اُس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ سال فی کلو قیمت 800 روپے تک رہی تاہم اب یہ قیمت گھٹ کر مشکل سے 700روپے فی کلو ہے ۔معلوم رہے کہ وادی بھر میں اس وقت اخروٹ کا سیزن جوبن پر ہے لیکن اس سال بھی تاجروں کا وہی رونا ہے کہ ان کا مال منڈیوں میں نہیں ٹک رہا ہے ۔ اس کاروبار سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ سال2016میں گری کی قیمت 1000سے 1500روپے فی کلو تھی، تاہم 2017سے اب تک گری کی قیمتوں میں 60فیصد کی کمی بتائی جا رہی ہے ۔ لگامہ اوڑی شمالی کشمیر کی سب سے بڑی اخروٹ کی منڈی ہے اور یہاں سے ہر سال گری سے بھرے 30ٹرک بیرون ریاستوں میں جاتے ہیں۔اس منڈی کے کاروباریوں کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک سے آئے ہوئے اخروٹ، یہاں کی مارکیٹ میں کم قیمت پرفروخت کئے جاتے ہیں، جس سے کشمیری اخروٹ کی افادیت میں کمی آئی ہے۔ضلع کپوارہ کے ہایہامہ ،کلاروس ،لولاب ،کرالہ پورہ ،رامحال اور ٹنگڈار ایسے علاقے ہیں جہاں کااخروٹ عالمی بازار میں بھی مشہورہے۔ان علاقوں سے سالانہ 50,000سے 80,000کوئنل گری تیار ہوتی ہے۔ اور سالانہ گری کی ڈیڑھ سو گاڑیاں منڈیوں میں پہنچتی ہیں ۔ کپواڑہ کے ایک تاجر محمد شفیع خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ کلوفورنیاامریکہ کی گری مارکیٹ میں پہلے سے ہی دستیاب ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کی گری organic ہے لیکن اس کے باوجود بھی بیوپاری انہیں وہ قیمتیں نہیں دے رہے ہیں جس قیمت پر انہوں نے گری خریدی ہو ۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم 700روپے میں فی کلو گری مالکان سے خریدتے ہیں تو باہر کی منڈیوں میں ٹیکس وغیرہ کاٹ کر انہیں 650روپے ہی ملتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کپوارہ میں ابھی گری کے بڑے کاروباریوں کے پاس سینکڑوں ٹن گری سڑ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بیرون ریاستوں خاص کر ممبئی میں کشمیر سے 100فیصد گری جاتی تھی لیکن اب وہاں یہاں سے صرف 10فیصد مال ہی جاتا ہے کیونکہ وہاں زیادہ تر لوگ چلی اور کلوفورنیا کی گری ہی خریدتے ہیں اور وہ انہیں کم داموں پر دستیاب ہوتی ہے ۔ڈرائی فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر بہادر خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال گری کی قیمتوںمیںتقریباً200روپے کی گرواٹ آئی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ بیرون منڈیوں میںدیگر ممالک کی گری دستیاب ہونے سے کشمیری گری کی قیمتوں میں کمی آئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیری گری سے متعلق حکام کی جانب سے کوئی بھی اقدمات نہیں کئے جاتے ہیں جس سے اس صنعت سے وابستہ لوگ پریشان ہیں ۔محکمہ باغبانی کے ڈائریکٹر جنرل اعجاز احمد بٹ نے کہا کہ قیمتوں میں ابھی کوئی کمی نہیں آئی ہے اگر کسی بھی جگہ منڈیوں میں تاجروں اور کاشتکاروں کو اپنا مال فروخت کرنے میں کوئی پریشانی ہے تو وہ محکمہ کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر وادی میں نہ صرف اخروٹ کے اعلیٰ معیار کے درخت لگائے جا رہے ہیں بلکہ اننت ناگ اور کپوارہ میں اخروٹ کے کارخانے کھولنے کیلئے محکمہ 35سے40فیصد سبسڈی دئے گا ۔انہوں نے کہا کہ تاجروں کے مسائل مرکزی سرکار کے ساتھ اٹھائے گئے ہیں اور مرکزی وزیر برائے زاعت نے یقین دلایا ہے کہ کشمیری کاشتکاروں کو مکمل تعاون ملے گا ۔