شوکت حمید
سرینگر//کشمیروادی میںگذشتہ چندبرسوں سے لیونڈر کی کاشت سے جہاں محکمہ زراعت اورسیاحت کو بھی فروغ مل رہا ہے وہیں پلوامہ، گاندربل اور اننت ناگ اضلاع کے کئی علاقوں میں لوگوںنے اس کی کاشت شروع کی ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں او اچھی آمدنی بھی حاصل ہوتی ہے۔لیوینڈر فصل میں غیر معمولی ترقی سے وادی ’جامنی انقلاب‘ کیطرف گامزن ہے۔وادی کی زرخیز زمین جہاں سیب، مشک بدجی چاول، اور زعفران سمیت مختلف فصلوں کی کاشت کے لیے موزوں ہے وہیںحالیہ کچھ برسوں سے لوگ لیوینڈر کی کھیتی کی طرف مائل ہورہے ہیں اور آمدنی حاصل کررہے ہیں ۔لیونڈر کے پھول سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بھی پیدا کر رہے ہیں۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی لیوینڈر فارموں کی سیر کرتے ہیںاورکشمیر کی روایتی ثقافت اور رہن سہن کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ لیونڈر کے پھول سے اخذ کیے جانے والے تیل سے کئی اقسام کی عطر تیار کی جاتی ہیں جبکہ یہ تیل مختلف ادویات میں استعمال میں ہوتا ہے۔ مرکزی سرکار اور جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے کسانوں کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لیے مختلف کوششیں کی جا رہی ہیں۔ زرعی سائنسدانوں کی جانب سے مختلف فصلوں پر تحقیق کی جاتی ہے تاکہ زراعت کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں مختلف پھولوں کی پیداواری صلاحیت کو کو بڑھایا جا سکے۔ ان ہی پھولوں میں خوشبو دار اور کیش کراپ لیونڈر سر فہرست ہے۔
لیونڈر سے اخذ کیے جانے والے تیل کی قومی بلکہ بین الااقوامی مارکیٹ میں کافی مانگ ہے اور اب جموں و کشمیر میں کئی مقامات پر لیونڈر کی کاشتکاری کی جاتی ہے۔محکمہ زراعت بھی لیونڈر کی کاشت کو مزید بڑھانے اور جدید تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے اس کی پیداوار کو مزید بہتر بنانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ جس سے نہ صرف لیونڈر کی مانگ کو پورا کیا جا سکے گا بلکہ کشمیر کی زراعت اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔۔ لیوینڈر کے پودے سجاوٹی کے طور پر اگائے جاتے ہیں۔ تجارتی طور پر، یہ پودا بنیادی طور پر لیوینڈر تیل کی پیداوار کے لیے اگایا جاتا ہے۔بٹ نورپلوامہ کے کاشتکار اعجاز احمد بٹ ولد عبدالاحد بٹ کا کہنا ہے کہ اس نے لیونڈر کی کاشت سال 2015 سے شروع کی ہے اوراس وقت 50 کنال اراضی پرکاشت ہورہی ہے ،وہ اس کی اپنی زمین نہیں ہے بلکہ اس نے 25 کنال اراضی کاشت کیلئے دوسرے لوگوں سے حاصل کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سالانہ اس کاشت سے 18 لاکھ روپے کی آمدنی حاصل کررہا ہے۔اعجاز کا کہنا تھا اس کاشت پر قریبا مزدوروں سمیت 4 لاکھ روپے کا خرچہ آرہاہے تاہم وہ اس کاشت سے حاصل معاوضے پر متفق ہے۔ڈائریکٹر زراعت چوہدری محمد اقبال نے کہا کہ ہولیسٹک ایگریکلچر ڈیولپمنٹ پروگرام (HADP) سے قبل تقریباً 27.85 ہیکٹر اراضی لیوینڈر کی کاشت کے لیے استعمال کی جاتی تھی جبکہ 2023-24 کے دوران HADP کے تحت 98.64 ہیکٹر اراضی لیوینڈر کی کاشت کے لیے لائی گئی تھی۔ وادی کشمیر میں اس وقت تقریباً 126.50 ہیکٹر رقبہ لیوینڈر کی کاشت کے تحت ہے۔ HADP سے پہلے لیوینڈر بایوماس کی پیداوار 557 کوئنٹل تھی جس میں 560 لیٹر تیل نکالا جاتا تھا۔ڈائریکٹر زراعت نے کہا کہ تین سال کے بعد لیوینڈر بائیو ماس کی متوقع پیداوار 2530 کوئنٹل تک پہنچنے کا امکان ہے جس سے 2600 لیٹر تیل کی پیداوار ہو سکتی ہے جس سے سالانہ 3 کروڑ سے 4 کروڑ روپے کی آمدنی ہوگی۔ اننت ناگ کے سرہامہ بجبہاڑہ میں سال 2021-22 کے دوران 6.05 ہیکٹر پر سرہاما لیوینڈر فارم میں 66.50 کوئنٹل پھولوں کی کاشت کی گئی تھی جبکہ 6.55 ہیکٹر پر اس نے سال 2022-23 کے دوران 93.35 کوئنٹل پیداوار حاصل کی تھی۔شوپیان کے الائو پورہ فارممیں 1.75 ہیکٹر کے رقبے پر 43 کوئنٹل 1.75 ہیکٹر اراضی پر سال 2021-22 کے دوران، 2022-23 کے دوران 2,272 ہیکٹر پر 26.20 کوئنٹل پیدا ہوئے۔ماڈل فلوریکلچر سینٹر نونر گاندربل میں سال 2023-24 کے دوران 3.40 ہیکٹر اراضی پر 67 کوئنٹل لیوینڈر کی پیداوار ہوئی جو پچھلے سال کے مقابلے 21 کوئنٹل زیادہ تھی اور ایگری چیک شوپیاں میں سال 2023-24 کے دوران 1.10 ہیکٹر اراضی پر پیداوار سب سے زیادہ 19.0 کوئنٹل تک پہنچ گئی اور یہ گزشتہ پیداوار سے تقریباً ایک کوئنٹل زیادہ تھی۔ماہرین کے مطابق وادی کشمیر میں لیوینڈر کی کاشت کے لیے بہترین حالات موجود ہیں۔ ایک کنال میں ایک کوئنٹل سے زیادہ لیوینڈر کی پیداوار ہوتی ہے۔ ایک لیٹر تیل کا حکومتی ریٹ 12000 روپے ہے۔لیونڈر کی تقریباً 95 اقسام ہیں جن کی تجارتی سطح پر بہت مانگ ہے۔ اور اب کشمیر کے متعدد کسان بھی لیونڈر کی کاشتکاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔محکمہ زراعت کی کوششوں سے اب نجی طور پر بھی کسان لیونڈر کی کاشت انجام دے رہے ہیں۔ان دنوں وادی کے مختلف اضلاع میں لیونڈر کی کٹائی کی جا رہی ہے جس کے بعد، عام طور پر، اسے پروسیسنگ کے لئے لال منڈی میں قائم ایکسٹریکشن پلانٹ میں بھیجا جاتا ہے۔پلوامہ میں بدری ناتھ لیوینڈر فارم کے انچارج، مختار احمد وانی نے بتایا کہ فصل کو خشک موسمی حالات سے بچانے کے لیے زیادہ تر مقامات پر فصل کی کٹائی تقریباً اپنے مقررہ وقت سے بہت پہلے مکمل کر لی گئی ہے۔ وانی نے بمپر فصل کی وجہ کٹائی کے دوران خشک موسم کی ایک مختصر مدت کو قرار دیا، جو معمول سے پہلے مکمل ہو گیا تھا۔