نیوزی لینڈ۔۔۔ ہر شب کو سحر کر!

  ۱۵ ؍مارچ کی تاریخ مسلمانان ِ عالم کےحافظے میں اب ایک سیاہ باب کے طور یاد رہے گی ۔ اس روز نیوزی لینڈ میں کرب وبلا کا ایک ایسا لہولہو منظر دنیا نے بہ نگاہ ِحسرت ویاس دیکھا کہ جس کی درد انگیزی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بے شک اس خون آشام المیےنے دنیا ئے انسانیت سے چارو ناچار یہ دو بدیہی حقیقتیں بھی از سر نوتسلیم کروائیں : اول دہشت گردی کا کوئی مخصوص مذہب ، نسل، رنگ اورزبان نہیں بلکہ یہ ناسورہر اُس مفتن اوروحشی کے دل ودماغ کی پیداوار ہے جوانسان دشمنی جیسی بیمار ذہنیت کا دائمی مریض ہو، دوم اس واقعہ نے اہل دنیا کو یاد دلایا کہ سطح ِزمین پر نظام ہست وبود یا جیو اور جینے دو کے آفاقی اصول کو بچانے کے لئے تمام ابنائے آدم کو اولین فرصت میں دہشت گردی کے خلاف نظری وعملی معنوںمیں متحد ہوناہوگا تاکہ انسان حیوانیت کا روپ دھارن کر کے دھرتی پر بوجھ بن کر نہ رہ جائے ۔ شایداسی اجماعی آوازکایہ اثر ہے کہ نیوزی لینڈ المیے کے مر کزی کردارآسٹریلیا کےجس اٹھائیس سالہ خون خوار دہشت گرد نے دو قریبی مساجد میں نماز جمعہ میں مصروف نمازیوںپر بندوق کا دہانہ کھول کر ۵۰؍انسانوں کو بلا روک ٹوک شہید کر ڈالا، اس کی اپنی ماں بھی اپنے ناخلف بیٹے کی سیہ کاری پر شرمسار اور شہدائے مساجد پر اشک بار ہے اور بآواز بلند اپنے بیٹے کو اپنے کئے کی کڑی سزا دینےکی موئید ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ عالمی لیڈروں نے اس بدترین المیے پر وہ تیکھا ردعمل نہ دکھایا جیسا وہ ایسے مواقع پر اب تک دکھاتے ر ہے ہیں۔ بایں ہمہ مجموعی طور دنیا تسلیم کر تی ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ انسانیت کے چہرے پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے، یہ آدمیت کے ماتھے پر ایک سیاہ دھبہ ہے، یہ ایک ناقابلِ مندمل زخم ہے، یہ دل دہلانے والی درندگی ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ دنیا دل وجان سے چاہتی ہے کہ انسانیت کے دفاع میں ایسی موثر تدابیر اختیار کی جائیں کہ دہشت گردی ساری دنیا میں قصہ ٔ پارینہ ہو اوراس کی خون خواریوں کا اعادہ ہمیشہ ہمیش کے لئے رُک جائے ۔اس بات کا احتمال بعید ازامکان قرار نہیں دیاجا سکتا کہ نیوز ی لینڈ میں اس انسان دشمن سانحے کا خدانخواستہ اب کوئی ردعمل وقوع پذیر ہو ۔ایسا ہوا تو پھر ایک بار بے گناہ وبے قصورانسانوں کے خون ِ ناحق سے زمین لالہ زار ہو گی اور پھر انتقام در انتقام سلسلہ دورِ جاہلیت کی طرح چلتا رہے گا۔ اس لئے مسلم قیادتوں کو دنیا بھر میں ملت کویہ پیغام دینا چاہیے کہ ہمیں اشتعال کا جواب اشتعال سے نہیں بلکہ اسلام کی انسان دوست تعلیمات کی نور انیت اور صبر وتحمل سے دینا چاہیے۔یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ نیوزی لینڈ حملے میں ملوث سنگ دل قاتل اتنا مردہ ضمیر اور وحشی الطبع ہے کہ اُس نے اپنی خون خواری جانتے بوجھتے کسی پردۂ اخفا میں نہ رکھی بلکہ  سوشل میڈیا پر قتل ِعمد کی ناقابل برداشت کارروائی کو لائیو دکھایا ۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ جنونی قاتل خبث ِباطن میں ڈوبا ایک ایسا درندہ ہے جسے تعصب ، تنفراور جذبہ ٔ انتقام نے اندھا کردیا ہے کہ اپنے کئے پر اسے کوئی شرمندگی ، پچھتاوا یا ملامت نہیں ہو سکتی ، اور یہ بہ قائمی ہوش وحواس اس المیے کی تشہیر کا سامان کر کےاسلامو فوبیا کے لاعلاج مرض میں مبتلاعناصر کو گویا کہہ رہا ہے کہ بے یار ومددگارمسلمانوں کو صدیوں پرانی تاریخ کا بدلہ لینے کے لئے تمہیں کلمہ خوانوں سے کس سفاکی ، کس بےدردی اور کس بے رحمی کے ساتھ پیش آنا چاہیے ۔ چناں چہ اس دہشت پسندانہ حملے کے سات روز بعد برمنگھم برطانیہ کی  رات کے اندھیرے میںچار مساجد کی مبینہ توڑ پھوڑ سےاشارہ ملتا ہے کہ ممکنہ طور کرائسٹ چرچ اور لین وُڈ کی مساجد پر دہشت گردانہ  حملوں کا ایکشن ری پلے کا خدشہ بھی ممکن ہے ۔ اس لئے جہاں مسلم اُمہ کو چوکنا رہنا ہوگا ،وہاں اسے یہ سوال بھی نظرانداز نہیں کرنا چا ہیے کہ کہیں مذکورہ دہشت گرد نے اپنا وحشیانہ پن لائیو دکھا کر مسلمانوں کو دیدہون دانستہ اشتعال دینے کی پالیسی تو نہ اپنائی تاکہ یہ جگرسوز خونی مناظر دیکھ کر مسلم نوجوان آپا کھوکر وہیں کر بیٹھیں جو دشمن کی چال اور اصل مراد ہے ؟ نیوزی لینڈ یورپ کاایک آزاد خیال اور جمہوریت نواز ملک ہے، یہاں کثیر نسلی مسلمانوں کی تعداد ملک کی کُل عیسائی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ۔ کسی دوسرے ملک سے یہاںدہشت گرد کا آنا اور پھر جمعہ کے روز عین نماز کی حالت میں مسلمانوںکو گو لیوں سے بھون ڈالنا، یہ مذموم حرکت بظاہرکسی عالمی دہشت گرد نیٹ ورک کی کارستانی اور گیم پلان کی نشاندہی کرتی ہے ۔ نیوزی لینڈ کی حکومت نے متاثرہ مسلم اقلیت کے خلاف دہشت گرد ی کی بلاتاخیربھر پور مذمت کر نا اور ملک کی خاتون وزیراعظم کا بہ نفس نفیس سوگوار وں کی بصدق دل ڈھارس بندھانا، اُن کے کھوے ہوئےاحساسِ تحفظ کی بازیابی کے لئے پارلیمنٹ کے ہنگامی اجلاس کا افتتاح ایک عالم دین کی تلاوت کلام اللہ سے کروانا، یہ سب مقامی مسلم اقلیت کے لئے ایک اچھی نوید ہے کہ کوئی تو ہے جو ابھی انسانیت کے ناطے حق اور ناحق کی لڑائی بر سر حق اور مظلومین کا طرف دار ہے۔ بلاشبہ یہ سب کر ناان کے فرض منصبی میں شامل ہے مگر فی الوقت غرب وشرق میںزیادہ تر حکمران اور انتظامی عہدیدار اپنی ا قلیتوں کے تئیں خیرخواہی دکھا نے میں ایساطرزعمل نہیں دکھاتے بلکہ ان کے بیانات واقدامات سے بسااوقات لگتا ہے کہ مسلم دشمن عناصر کی طرح ان کا ضمیر خفتہ اور سوچ باغی ہے۔بہر صورت نیوزی لینڈ کے دلدوز سانحہ کے ڈانڈے مسلمان مخالف اور اسلام بیزار تہذیبوں کے تصادم والے فلسفے سے بھی ملتے نظر آتے ہیں۔اس بیمار ذہن فلسفے کی گونج سرد جنگ کے مابعد مغرب میں جابجازہر یلے پروپگنڈے کی صورت میںسنی گئی، علی الخصوص نائین الیون کے سنسنی خیز واقعہ نے اس حوالے سے جلتی پر تیل کاکام کیا۔ ستم بالائے ستم مسلم دنیا کے ستاون ملکوں میں سےکسی ایک واحد ملک کی طرف سے بھی مغرب میں غلط فہمیوں اور تنگ نظریوں کے کو کھ سے جنمے اس فتنہ پرور فلسفے کی کبھی دو سطری تردید نہ ہوئی، نہ کسی ایک نے مسلمانوں کے حوالے سے مغرب کے بے اصل مذعومات، تعصبات اور ذہنی تحفظات کا مدلل ومفصل جواب دیا ، نہ کسی سطح پر اسلام کے نظریۂ امن وانسانیت کی وکالت کر نے کی کسی کو توفیق ہوئی ، نہ اس فلسفے کے بھینٹ چڑھے مسلمانوںکا کسی نےدفاع ہی کیا۔ نتیجہ یہ کہ کرہ ٔارض پر آباد چھ اَرب نفوس میں پونے دواَرب مسلمان مغرب کی نگاہ میں آج راندہ ٔ درگاہ ٹھہرے ہوئے ہیں،ان کے ساتھ ہمدردی اور حسنِ سلوک روا رکھنامغرب میں موجود نسل پرست متشددگروہوں کے یہاں سنپولوں کو دودھ پالنے کے مترادف گناہ سمجھا جارہا ہے۔ ان انتہاپسندوں میںنوع نوع کے مسلم بیزار جذبات کا آتش فشاں بھڑکتے رہنے سے دیارِ مغرب میں رہ رہی مسلم اقلیت پر ہمہ و قت خوف ودہشت طاری رہنا قابل فہم ہے ۔اس اقلیت پر شک وشبے، تذلیل و تحقیر اور نفرت وعداوت کی تیر اندازیاں بھی بیک وقت ہوتی ہیں ۔ مغرب ہو یامشرق، انسانیت کےناطے ہمارا منشور بہ حیثیت مسلمان علامہ اقبالؔ کے بقول یہ ہونا چاہیے   ؎
 مغرب سے بیزار نہ مشرق سے حذر کر فطرت کا اشارہ ہے ہر شب کو سحر کر