نیشنل کانفر نس کی پارلیمنٹ میں دستک

نئی دہلی// نیشنل کانفرنس نے لوک سبھا کے مونسون اجلاس کے دوران شوپیان فرضی انکائونٹر اور سوپور حراستی ہلاکتوں کے معاملات اٹھا کر ایوان میں تحریک التوا پیش کی۔این سی نے کہا کہ جموں کشمیر میں پچھلے ایک سال سے زیادتیوں کے نئے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں۔نیشنل کانفرنس رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے بدھ کو پارلیمنٹ اجلاس کے دوران وقفہ صفر میں سوپور میں نوجوانوں کی پُراسرار ہلاکت اور مبینہ شوپیان فرضی تصادم میں 3نوجوانوں کی ہلاکت کے معاملات اُٹھائے۔ انہوں نے ایوان کو آگاہ کیا کہ 5اگست2019کے غیر آئینی فیصلے کے بعد جموںوکشمیر میں ظلم و جبر کی ایک داستان لکھی جارہی ہے۔مرکزی حکومت نے اپنے فیصلوں کو صحیح جتلانے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں گرفتاریاں عمل میں لائیں اور اب فرضی انکائونٹروں اور حراستی ہلاکتوں سے جبر و استبداد کے نئے ریکارڈ قائم کئے جارہے ہیں۔ ایک ماہ قبل شوپیان میں ایک تصادم آرائی میں 3 نوجوانوں کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ تینوں خوفناک جنگجو تھے لیکن کچھ دن بعد پتہ چلا کہ وہ راجوری کے بے گناہ مزدور ہیں اور مبینہ طور پر ایک فرضی انکائونٹر میں مارے گئے۔ڈی این اے کے نمونے اگرچہ ایک ماہ قبل حاصل کئے گئے لیکن اب تحقیقات میںبلا وجہ تاخیر کی جارہی ہے۔انہوں نے وزیر دفاع سے کہا کہ وہ ایوان کو اس فرضی انکائونٹر کی تحقیقات کی صورتحال کے بارے میں آگاہ کریں۔ مسعودی نے سوپور کے 24سالہ نوجوان عرفان احمد ڈار کی مبینہ حراستی ہلاکت کا بھی معاملہ اُٹھایا اور حکومت کو اس بارے میں بیان دینے کیلئے کہا۔ انہوں نے حکومت ہند کو یاد دہانی کرائی کہ ظلم و تشدد اور جبر و استبداد سے کوئی بھی نتائج سامنے نہیں آسکتے بلکہ اس سے جموں وکشمیر کے عوام اور ملک کے درمیان خلیج اور زیادہ بڑے گی۔دریں اثناء رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور حسنین مسعودی نے تحریک التوا پیش کی اور شوپیان کے معاملے میں تحقیقات سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے  توجہ دلائو تحریک پیش کی۔ادھر پارٹی کے رکن پارلیمان محمد اکبر لون نے نوجوانوں کی پُراسرار ہلاکت پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبات کیا ہے اور ایسے واقعات کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ 
 
 

مین سٹریم پارٹیاں برہم

اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ

نیوز ڈیسک
 
سرینگر// نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور اپنی پارٹی نے سوپور میں نوجوان کی پُراسرار ہلاکت پر زبردست تشویش اور رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے معاملے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ مہلوک کے گھروالوں نے پولیس دعوئوں کی نفی کی ہے اور ایسے میں حقائق کو عوام کے سامنے لاناانتہائی ضروری بن گیا ہے۔ انہوںنے کہا کہ شوپیان اور سوپور جیسے پُراسرار انکائونٹروں کے حقائق جانے کی کوشش نہیں کریگی اور اس بات کی کوشش نہیں کریگی کہ خاطیوں کو قرارواقعی سزادی جائے تو یہ عوام کا اعتماد حاصل نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کو دونوں معاملات میں ذاتی مداخلت کرنی چاہئے۔پی ڈی پی نے نوجوان کے قتل کو بہیمانہ ہلاکت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اندوہناک واقعہ نے ایک بار پھر سنگین یاد دہانی کا کام کیا ہے کہ کس طرح حقیقت کو پامال کیا جاتا ہے۔پی ڈی پی ترجمان نے کہا کہ کشمیر میں مسلح افواج کو بے گناہ لوگوں کو حراست میں لینے ، ان پر تشدد کرنے یا ان کو ہلاک کرنے کے لئے قطعی استثنیٰ دے دیا گیا ہے اور اسی طرح 23 سالہ عرفان احمد ڈار ، جو پیشہ سے ایک دکاندار ہے، کو غلط طور پر OGW ہونے کا الزام لگاکر اس کا قتل کیا گیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ ان کشمیری اہل خانہ کے زخم ابھی ہرے ہیں جنہیں حال ہی میں شوپیان میں فورسز نے ہلاک کیا تھا اور حکام نے کشمیر کے ایک اور بے گناہ شہری کو قتل کر دیا ۔انہوں نے کہا کہ حکام نے شوپیاں فرضی جھڑپ کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن اس تفتیش میں بھی تاخیر کے حربے اپنائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں بندوق اور گولی لوگوں کو قائل کرنے کیلئے بھارت کی واحد علامت بن چکی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی عوام کی آوازیں اس کیلئے بلند ہوں ۔اپنی پارٹی نے بھی واقعہ کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔ پارٹی ترجمان جاوید بیگ نے مانگ کی ہے کہ حکومت کو انکوئری کمیٹی تشکیل دینی چاہئے تاکہ واقعے کی حقیقت کا پتہ لگایاجاسکے کیونکہ ہلاکت سے متعلق پولیس اور نوجوان کے لواحقین کے متضاد بیانات اور دعوے ہیں۔انہوں نے کہا اگر پولیس کا دعویٰ درست ہے کہ مقتول نوجوان بالائے زمین ورکر تھا جو مبینہ طور اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر دورانِ تلاشی فرار ہوگیا، اُس کی نعش تجر شریف کے پاس ملی، پھر بھی پولیس قانون کے تحت اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔ حالات جوکہ نوجوان کی موت کا سبب بنے کی تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سچائی کا پتہ لگایاجاسکے۔ انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا پرزور دیا ہے کہ اس واقعے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے معیاد بند تحقیقات کا حکم دیاجائے کیونکہ اس سے پورے علاقے میں غم و غصے کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔