جگُو بھیک مانگنے میں ماہر تھا کیونکہ جب اُس نے ہوش سنبھالا تھا بس اپنے آپ کو بھیک مانگتے پایا تھا۔ بچپن سے لیکر نوجوانی کے ایام تک سارا سارا دن صرف چِلّا چِلّا اور گِڑ گِڑا کے بھیک مانگتا تھا اور ملتا کیا تھا صرف دو وقت کی رُوکھی سُوکھی روٹی اور دال۔
دن بھر کی کمائی روز شام کو گوگا پنڈت کے حوالے کرنی ہوتی تھی جو سب بھکاریوں سے لئے گئے پیسے سیٹھ بنواری لعل کو بھیج دیتا تھا۔ جگُو اور اُس کے دوسرے ساتھی لڑکے اور لڑکیاں سب اپنی دن بھر کی کمائی لاکے گوگا پنڈت کے حوالے کردیتے تھے اور ان بھکاریوں کو اس کے عوض ملتا تھا دو وقت کی چائے،دال روٹی اور رات گذرانے کیلئے جگہ۔
ان بھکاری لڑکے لڑکیوں کے لئے دن بھر کی کمائی کا تعین پہلے سے ہی جگہوں اور ان کے تجربے اور عمر کے مطابق کردیا گیا ہوتا تھا۔ اگر تعین کردہ رقم سے کم پیسا لایا تو کھانے میں روٹی کم کردی جاتی تھی۔ البتہ اگر مقرر کردہ حد سے زیادہ کما کےلاتے تو ایک آدھ روٹی زیادہ ملتی تھی۔
جب جگُو ذرا بڑا ہوگیا تو پنڈت نے اُس کے بھیک مانگنے کی جگہ بدل دی اور روز کی کمائی کی حد بڑھا کے سو روپے کردی گئی۔
پنڈت جی نے سب بھکاری لڑکے، لڑکیوں، بوڑھوں اور معذور اشخاص کے لئے شہر میں مخصوص جگہیں مقرر کر رکھی تھیں۔ ان مخصوص جگہوں کے بغیر کسی کو بھی دوسری جگہ بھیک مانگنے کی اجازت نہیں تھی۔ سُناگیا تھا کہ بڑے سیٹھ جی نے بھیک مانگنے والی جگہوں کو بھیک مانگنے کی غرض سے کافی روپے دیکے خریدا تھا۔ کچھ جگہیں بھیک مانگنے کے اعتبار سے بہت قیمتی سمجھی جاتی تھیں، جیسے ہوٹلوں کے باہر، بینکوں کے باہر، بیکری کی دوکانوں کے پاس، ٹریفک لائٹس والے چوراہوں پر، بس سٹینڈ اور ریلوے سٹیشنوں پر وغیرہ وغیرہ۔ ان جگہوں پر تجربہ کار اور منجھے ہوئے بھکاریوں کو ہی رکھا جاتا تھا۔ ان جگہوں پر دن کی آمدنی کی حد بہت زیادہ رکھی جاتی تھی۔ طے شدہ شرائط سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں تھی کیونکہ سیٹھ جی اور اُس کے عملے نے سب وابستہ اداروں اور حکام سے بنا کے رکھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی بھی بھکاری کا ان کے چنگل سے نکل بھاگنا بہت مشکل تھا۔
جُگو ریاست بہار کے ایک دور دراز گائوں میں پیدا ہوا تھا جہاں اب اُس کا کوئی بھی رشتہ دار یا واقف نہیں تھا۔ اب اُس کا گھر یہی بھکاریوں کا سینٹر تھا اور ساتھی لڑکے لڑکیاں رشتے دار۔ وہ اب جوان ہوچکا تھا۔ عمر تقریباً سولہ سترہ سال کے قریب تھی۔ اُسے گائوں کے ایک چھوٹے سے بس سٹینڈ پہ بھیک مانگنے کیلئے جگہ ملی تھی اور روز شام کو تین سو روپے جمع کرکے پنڈت جی کے حوالے کرنے ہوتے تھے۔ یہ رقم اس چھوٹے سے بس سٹینڈ کے لئے بہت تھی اس لئے اکثر آدھا پیٹ روٹی نصیب ہوتی تھی۔ اتفاق سے اگر کسی دن مقرر کردہ رقم سے زیادہ پیسے مل جاتے تو وہ روز کی جیب تلاشی کے دوران نکال لئے جاتے تھے۔
جوان ہوتے ہی جگُو کے ذہن میں یہاں سے بھاگ نکلنے کا خیال ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ دراصل یہ انسانی فطرت ہے کہ جوانی میں انسان آزادی چاہتا ہے۔ خیال کی آزادی، سوچ کی آزادی، کام کرنے کی آزادی، کھانے پینے کی آزادی، رہنے اور زندگی گذارنے کی آزادی۔ ایسی سوچ کے لئے خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ یہ ارتقائے زندگی کا ایک لازمی عنصر ہے جس کی بس صرف ایک وجہ ہے ’’جوانی‘‘۔ انسان کسی بھی طرح کی زندگی گزار رہا ہو، جوانی کے ایام میں آزاد زندگی کا خواہشمند ہوجاتا ہے۔ اگر ایسے خیالات پہ قابو پا لیا جائے تو زندگی پُرسکون ہوجاتی ہے ورنہ یہ ایک سیلاب ہے جو اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ایسے میں یا تو آپ ساحل پہ پہنچ کے کامیاب ہوجاتے ہیں یا پھر وقت کی تیز و تند لہریں اپنے ساتھ بہا کے لے جاتی ہیں۔
جگُو نے اب سوچ لیا تھا کہ روز روز کہ بے عزتی، پیٹ بھر کھانا نہ ملنا اور ذِلت کی زندگی سے بہتر ہے کہ اس جہنم سے بھاگا جائے۔ اس لئے اس فیصلے کو راز میں رکھتے ہوئے دن بھر کی بھیک سے جمع کئے ہوئے دو سو ستر روپے لیکے وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ ریل گاڑی میں بنا ٹکٹ کے سفر کرتے ہوئے مختلف سٹیشنوں پر اُترتے چڑھتے ہوئے وہ کوئی دو دن بعد دہلی پہنچ گیا۔
دہلی جیسے بڑے شہر میں بھیک مانگ کے کھانے پینے کا گذارہ تو ہوگیا مگر رات کو سونے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی کیونکہ سب جگہوں پر دہلی کے مستقل بھکاریوں نے قبضہ جما رکھا تھا۔ اُسے پتہ چلا کہ ایک الگ گروہ ہے جگہوں کو یا تو بیچتے تھے یا پھر کرائے پر دیتے تھے۔ رقم چاہے کرائے کیلئے ہو یا خریدنے کیلئے یہ دونوں صورتیں جگُو کی بساط سے بہت باہر تھیں ۔ اور تو اور کسی سے مِل بانٹ کے جگہ حاصل کرنا بھی اُس کے لئے بہت مہنگا تھا۔ کافی کوشش اور دوڑ دھوپ کے بعد اُسے سائوتھ دہلی کے اندرونی علاقے میں رات کو سونے کیلئے سو روپے رات کے حساب سے جگہ مل گئی اور یہ پیسے روز پیشگی میں ادا کرنے تھے۔
ایک رات کیلئے تو جگُو نے سمجھوتہ کرلیا مگر وہ سوچنے لگا کہ آگے کیا ہوگا؟ حد تو یہ ہے کہ یہاں بھی کمانگنے کیلئے اپنی مرضی کا کوئی ٹھکانہ نہیں کیونکہ تقریباً سب جگہیں بانٹی جاچکی ہیں۔ کچھ بھکاریوں سے ملنے اور مشورہ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ مختلف جگہوں پہ بیٹھ کے بھیک مانگنے کے لئے الگ الگ بھائو ہیں اور رات گذارنے کے الگ۔ یہ ڈیمانڈ جگُو جیسے نئے بھکاری کے لئے بہت تھی۔
ایک دن جگُو کو اپنے ہی گائوں کا ایک اور بھکاری رامو ملا جو اُسے اپنے ٹھیکے دار کے پاس لے گیا اور کچھ دنوں کے لئے بھیک مانگنے اور رات گذارنے کے لئے دو سو روپے فی دن کے حساب سے جگہ دلوا دی۔ اُس نے دیکھا کہ موجودہ حالات میں یہ انتظام سب سے سستا اور بہتر تھا۔
کچھ دن یہ سلسلہ چلتا رہا اور جگُو اپنا خون پسینہ ایک کرکے بمشکل چار پانچ سو روپے کما کے یہ خرچہ پورا کرتا رہا۔ مگر اب اُسے احساس ہو چلا تھا کہ دلی جیسی جگہ میں گذارہ کرنا بہت مشکل ہے۔ جو کچھ سوچ کے بھاگا تھا وہ مقصد پورا نہیں ہو پارہا تھا۔ اب واپس بھاگنا بھی تو ممکن نہیں تھا کیونکہ پنڈت تو خون پی جائیگا۔ اسی اُدھیڑ بُن میں وہ ٹھیک سے نہ تو سو سکتا تھا اور نا ہی صحیح طریقے سے بھیک مانگ سکتا تھا۔
ایک رات جب وہ لیٹا تھا تو اُس نے دوسرے بھکاریوں کو آپس میں باتیں کرتے ہوئے سُنا۔ سب اپنی اپنی کمائی اور اخراجات کا رونا رو روہے تھے۔ کسی نے کہا کہ تپن، سُندر اور گوِند بھاگ گئے ہیں کیونکہ تینوں کم آمدنی اور زیادہ خرچ کے باعث تنگ آچکے تھے اور گھر کچھ بھی نہیں بھیج پاتے تھے۔ بزرگ بھکاری شُمبھو داد بیچ میں بول پڑے۔ ارے بھائیوں یہاں سب کے حالات ایک جیسے ہیں۔ اگر بہت روپیہ پیسہ کمانا ہے تو پورے بھارت میں کشمیر سے بہتر کوئی اور جگہ نہیں۔ میں کب کا چلا گیا ہوتا مگر گھریلو مجبوریاں روک رہی ہیں۔ کالُو اچانک بول اُٹھا کہ دادا سُنا ہے کشمیر میں حالات خراب ہیں اور سُنا ہے وہاں باہر والوں کو مار دیتے ہیں۔
’’یہ سب غلط ہے۔ بس اخباروں اور ٹی وی والوں کی پھیلائی ہوئی افواہیں ہیں۔ ہماری برادری اور واقف کار لوگ ہزاروں کی تعداد میں ہر سال کشمیر جاتے ہیں اورآج تک کسی پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ ہمارے لوگوں نے تو یہاں تک کہاکہ ہے پورے دیش میں کشمیر سے زیادہ محفوظ کوئی جگہ نہیں‘‘۔ شُمبھو دادا نے پورے وثوق سے یہ سب کو بتایا۔ چُندو، جو کچھ سال کشمیر میں گزار کے آیا تھا، نے بھی داد کی بات کی تائید کی۔ اُس نے تو اس حد تک بھی کہا کہ اگر اُس کی گھریلو مجبوریاں نہ ہوتیں تو شاید وہ ہر سال کشمیر جاتا۔ چُندو نے مزید کہا کہ ہماری برادری کے علاوہ ہر سال یو پی، بہار، اُڑیسہ، بنگال ، جھارکھنڈ وغیرہ سے مزدور، مستری، ترکھان، معمار ہزاروں کی تعداد میں کشمیر جاتے ہیں مگر آج تک کبھی کسی نے کوئی شکایت نہیں کی۔ کمال تو یہ ہے کہ پچھلے تیس سال سے زیادہ تر جانی نقصان تو وہاں کے رہنے والے لوگوں کا ہوا ہے مگر اُن کے بارے میں تو اخبارات اور ٹی وی چینلز خاموش ہیں۔ بھائیو اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو جاکے دیکھ لے۔
جگُو خاموش لیٹا سب سُن رہا تھا۔ اُسے اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ کشمیر جاکے دیکھ لیا جائے کیونکہ یہاں گذارہ مشکل ہے۔ اُس نے ارادہ کرلیا کہ وہ صرف رامو کو بتا کے نکل جائے گا۔
دوسرے دن جگُو بغیر ٹکٹ کے ریل گاڑی میں بیٹھ کے جموں روانہ ہوگیا۔ مختلف سٹیشنوں پہ مختلف ڈبوں میں چڑھ اُتر کے وہ شام کو جموں ریلوے سٹیشن پر پہنچ گیا۔ یہاں اُسے بتایا گیا کہ کشمیر جانے کیلئے منت سماجت کرکے کسی ٹرک والے سے لفٹ مانگی جائے کیونکہ سستا طریقہ صرف یہی ہے۔ اگر کسی ٹرک والے کو ترس آیا تو سمجھو کام بن گیا۔ بس ایسا ہی ہوا ایک ٹینکر ڈرائیور کو جگُو پر ترس آیا اور اُس نے سستے میں اُسے سرینگر پہنچا دیا۔
کشمیر پہنچ کے وہ مختلف جگہوں پہ بھیک مانگتا رہا اور کھانے پینے کا گزارہ ہوتا رہا مگر رات گذارنے کیلئے کوئی جگہ نہیں ملی کیونکہ کشمیر میں فٹ پاتھ یا سڑکوں کے کنارے رہنے کا کوئی رواج نہیں۔ دن بھر کی بھیک سے خاصی رقم جمع ہوجاتی تھی مگر رات گذارنے کیلئے جگہ نہیں تھی۔ کچھ خالی زمینیں یا دوکانوں پہ جگہ تھی مگر وہ دوسرے بھکاریوں نے قبضہ جما کے رکھی تھی۔ کچھ بھکاری ساتھیوں نے جگُو کو بتایا کہ اُسے کسی گُروپ کے ساتھ مل کر رات گذارنے اور کھانے پینے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔ فی الحال اُس نے کھانے پینے کا انتظام ایک ٹی سٹال سے کرلیا اور ایک ساتھی بھکاری کی مدد سے بڑے بازار میں کسی دوکان کی دہلیز پہ عارضی طور پر رہنے کا بندوبست ہوگیا۔
کچھ وقت گذارنے کے بعد جگُو کو پورا یقین ہوگیا کہ یہ جگہ واقعی بہت محفوظ ہے۔ اتنے مہینے بھیک مانگنے کے بعد بھی آج تک اُس سے کسی نے مذہب، ذات پات یا نسل کے بارے میں نہیں پوچھا تھا۔
اب جگُو کو ایک خیال بار بار ستاتا کہ کیا بھیک مانگنا بُرا پیشہ ہے؟ عام لوگ اِسے بُرا کیوں سمجھتے ہیں؟
اصل میں جب وہ صبح بھیک مانگنے نکلتا تھا تو اکثر چوراہوں اور دیگر جگہوں پر باہر کے لوگوں کی بھیڑ دیکھتا جو عام طور پر مستری، رنگساز، پلمبر، مزدور ہوتے تھے اور لوگ انہیں اپنی اپنی ضرورت کے مطابق اُجرت پہ گھر لے جاتے۔ کام کی یہ حد تھی کہ نو بجے سے پہلے پہلے یہ جگہیں خالی ہوجاتی تھیں۔ جگُو سوچنے لگتا کہ انہیں روزکام مل جاتا ہے اور سب انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ اُسے اپنے پیشے کے بارے میں جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ وہ سب سنجیدگی سے سوچنے لگا تھا کہ صرف روپیہ کمانا ہی ضروری نہیں۔ کام میں عزت بھی ضروری ہے۔ نہ جانے اُسے یہ خیال کشمیر پہنچ کے کیوں آیا؟شاید اس لئے کہ وہ اب آزادی سے سوچ سکتا تھا۔ حالانکہ بھیک میں اُس کی کمائی مزدوروں سے کہیں زیادہ تھی مگر اب اُسے احساس ہورہا تھا کہ بھیک میں عزت نہیں ہے۔
ایک دن جب وہ حسبِ معمول صبح ٹی سٹال پہ چائے پی رہا تھا تو کچھ اور چائے پی رہے لوگ اُسی کے علاقے کی بولی میں بات کررہے تھے۔ اُس نے بھی اُن کی ہاں میں ہاں ملا دی۔ چونکہ زبان ملنے، قریب آنے اور ایکدوسرے کو جاننے کا بہترین ذریعہ ہے اس لئے وہ جلد ہی اُن سے گُھل مل گیا۔ جگُو نے اپنی اصلیت چُھپاتے ہوئے اُن کو بتایا کہ وہ مزدور ہے اور رہنے کیلئے جگہ کی تلاش میں ہے۔ اُنہیں جگو پر ترس آگیا اور انہوں نے بتایا کہ اُن کے ٹھکانے پر ایک آدمی کے رہنے کیلئے جگہ ہے مگر وہ دوسرے ساتھیوں سے پوچھنے کے بعد ہی اُسے اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ اگر بات بن گئی تو اُسے بھی سب کی طرح رہنے اور کھانے پینے کا مہینے کے حساب سے خرچہ دینا ہوگا۔ جگُو، جس نے اب اپنا نام جگدیو بتایا تھا، اُن کی سب شرطیں مان گیا۔
اگلے دن سے اُسے جگہ مل گئی اور وہ اُن کے ساتھ رہنے لگا لیکن اُس نے اپنی اصلیت اُن سے چھپائے رکھی۔ کچھ دن بعد جب وہ ایک صبح نیند سے اُٹھا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کے ساتھ رہنے والے لوگ خوش اور مطمئن تھے جبکہ وہ پریشان تھا۔ اُس نے سوچا کہ یہ خوشی اور اطمینان ان لوگوں میں محنت اور حلال کی کمائی کی وجہ سے ہے جبکہ اُس کی پریشانی کا سبب بھیک مانگنا ہے۔۔۔شائد۔
آخر کچھ دنوں بعد سب لوگ مزدوری اور دوسرے کاموں کیلئے نکل پڑے تو جگُو اُن کے ساتھ نکل پڑا۔ وہ بھی ایک چوک پہ دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اتنے میں ایک صاحب نے آکے اپنی گاڑی روک کے مزدور کے لئے آواز دی۔ نیا آدمی جانتے ہوئے سب نے جگو کی سفارش کی اور وہ اُس صاحب کی گاڑی میں بیٹھ کے مزدوری کرنے نکل پڑا۔ پیچھے سے کسی نے آواز دی ’’اے یہ تو جگُو بھکاری ہے بھلا مزدور کب سے بن گیا‘‘۔ شائد کوئی جگُو کو پہچان گیا تھا۔
���
راولپورہ، سرینگر ،کشمیر
موبائل نمبر؛94190118811