موسمِ گرما ہو یا موسمِ سرما،اب تو آبی ذخائر سے مالا مال کہلانے والی وادیٔ کشمیر انسانی زندگی کی بقاءکے لئے بنیادی ضرورت پینے کے پانی کی قدرتی نعمت سے بھی محروم ہوتی جارہی ہے۔دن بہ دن وادی کے مختلف اضلاع کے بیشتر علاقوں کے لوگوں کے لئے پینے کے پانی کا حصول انتہائی دشوار ہوتا جارہا ہے اور بعض علاقوں میں بالکل ہی نایاب ہورہا ہے۔بعض اضلاع میں لوگ پینے کے صاف پانی کی شدید قلت اور نایابی کے باعث زندگی کی بقاءکو قائم رکھنے کے لئے ندی نالوں کا گدلا ،ناصاف اور مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہورہے ہیں جبکہ بعض شہری علاقوں میں لوگ نَل میں جَل آنے کے انتظار میں پَل پَل گزار رہے ہیں ، پھر بھی جب جَل تواتر کے ساتھ چھَل کرتا رہتا ہے تو وہ بھی مجبوراً ٹیوب ویل کےبِلا ٹیسٹ پانی سے اپنی ضروریات پوری کرکے مختلف بیماریوں کو گلے لگا رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ گرمیوں میں شدت آنے کے ساتھ ہی پینے کے پانی کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی سے لوگوں میں ہاہا کار مچ جاتی ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ ہونے سےجہاں آبی ذخیروں ، جھیلوں اور ندی نالوں کے کچھ حصے خشک ہو رہے ہیںوہیں بیشتر چھوٹی چھوٹی چھوٹی پائپ سپلائی لائنیں بھی پانی میں پریشر کم ہونے کی وجہ سے بے کار پڑی رہتی ہیں،جس کے نتیجے میں صارفین کوپانی کی دستیابی میں تواتر کے ساتھ کمی ہورہی ہے۔چنانچہ گذشتہ سال سے جاری وادی کشمیر میںبجلی بحران کی جو کیفیت چلی آرہی ہے،اُس کی وجہ سے بھی بیشتر علاقوں میں پینے کے پانی فراہمی میں دِقتیں پیش آرہی ہیں۔ جونہی شیڈول کے تحت بجلی آتی ہے تو سبھی لوگ اپنی ضروریات کے مطابق پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے بجلی موٹرز کا استعمال کرتے رہتے ہیں ،جس کے نتیجے بعض لوگوں کو توپانی حاصل ہوتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ موٹروں کے استعمال کے باوجود پانی سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ پانی کی سپلائی لائینوں میں پانی کا بہائو نہ ہونے کے کارَن اُن تک پانی نہیں پہنچ پاتا ہے ، نتیجتاً موٹر ز بھی بے کار ثابت ہورہے ہیںاور موٹر جَل کر ناکارہ ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال میں مختلف علاقوں کے لوگوں کو پینے کے پانی کی حصولیابی کے لئے طرح طرح کے جتن کرنے پڑرہے ہیںاور پھر تنگ آید بہ جنگ آید کے مصداق سڑکوں پر آکر احتجاجی مظاہرے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔گذشتہ روز بھی جہاں ایک طرف وزیر اعظم ہندکی کشمیر آمد پر شدو مد کے ساتھ سرکاری تقریبات ہورہی تھیں ،وہیں دوسری طرف اخباری اطلاعات کے مطابق مختلف اضلاع میں لو گ پانی کی نایابی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے تھے۔جن میں اندر کوٹ گاندربل،کرہامہ اور کنگن ٹاون اورکنڈپورہ مٹن کے بیشتر علاقے قابل ذکرہیں۔بے شک پینے کا صاف پانی انسانی زندگی کا بنیادی اور لازمی جُز ہے،ہوا کے بعد انسانی زندگی کا درومدار توپینے کے پانی پر ہی منحصر ہے۔وادیٔ کشمیر کو اگرچہ قدرت نے پینے کے پانی کے ذخائر سے مالا مال کررکھا تھا لیکن وقت وقت کے حکمرانوں کی غیر ذ مہ دارانہ پالیسیوں اور یہاں کے لوگوں کی خود غرضیوں اور لاپرواہیوں سے وادی کشمیر اس عظیم نعمت بھی محروم ہونے لگی ہے۔اگرچہ ابھی بھی یہاں پانی کے کئی بڑے ذخائر اور وسیع ذرائع موجود ہیں ،جن سے یہاں کے عوام کے لئےپانی کی ضروریات آسانی کے ساتھ پوری کی جاسکتی ہے، لیکن یہاں کی سرکاری کارکردگی میں منصوبہ بندی کے فقدان ،ناقص سکیموں کی ترتیب اور کورپشن کے ساتھ ساتھ عوام کاغیر ذمہ دارانہ رول بھی پانی کی قلت کا ایک بڑا سبب بنا ہوا ہے۔گذشتہ کئی برسوں سے شہر اور دیہات میں لوگ پینے کے پانی کے بحران کے خلاف آواز بلند کرتے چلے آرہے ہیں لیکن پھر بھی پینے کے پانی کے بحران پر قابو پانے کے لئے سرکار کی طرف سے کوئی موثر اور مثبت کوشش نہیں ہوسکی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جموں وکشمیر کی انتظامیہ کو جہاں پانی کی فراہمی کے مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے وہیں بجلی کی نایابی کے مسئلے پر بھی متوجہ ہونا چاہئےتاکہ یہاں کے عوام کو زندگی کے ان بنیادی ضرورتوں کی حصولیابی کے لئے پَل پَل تڑپنا اور ترسنانہ پڑے۔