ناصر منصور شاز
بے روزگاری کی مایوسی نے طالب کی زندگی میں در در کی ٹھوکروں اور کچھ بھی نہ ہاتھ لگنے کے بعد آخر ناامیدی کی گُھپ اندھرے میں دکھیل دیا۔
طالب کے والد صاحب پیشہ سے ایک سرکاری ملازم تھے ۔ جس زمانے میں اِس کے والد بر سر روز گار ہوئے اُس زمانے میں زیادہ پڑھنے لکھنے کا عام رواج نہیں تھا ۔ خوش قسمتی تھی کہ طالب کے والد نے آٹھویں کلاس کیا پاس تھا۔ اسی بدولت سرکاری نوکری میسر ہو پائی تھی اور ایس آو کے عہدے سے ریٹائر بھی ہوئے تھے۔ طالب بھی باپ کے نقش قدم پر ہی چلنا چاہتا تھا ۔ سرکاری نوکری کی طلب نے طالب کی ذہن میں نوکری کا کیڑا پیدا کیا تھا۔ اعلی تعلیم یافتہ تھا ایم اے انگلش کیا ہوا تھا ۔ صبح و شام اسی فراق میں گم تھا کہ کب وہ دن آئے گا جب میں صبح سوٹ بوٹ پہن کر آفس کے لئے نکلا کروں ۔طالب نے بیشمار موقعے بھی گنوا دیئے
جب اسے اس کے ہم عصر دوستوں نے اور دیگر رفقاء نے وقتًاًفوقتًاسرکاری نوکری کے علاوہ پرائیویٹ جابز کرنے پر اصرار کیا لیکن وہ از سرتا پا اس کا انکاری تھا ۔
اس کے دوستوں کی عمریں جب پیشہ کو پہنچی تو سرکاری نوکری کے علاوہ مختلف پرائیویٹ شعبوں میں اپنی قسمت آزمائی۔ان کی یہ کوششیں رنگ لاکر آخر اس کے سب دوست صاحب روز گار ہوئے۔ کسی کو کم تو کسی کو زیادہ اللہ تعالی نے ان کی حرکت میں برکت عطا کردی۔
سرکاری نوکری کی کشمکش میں طالب بیچارہ رشوت دینے پر بھی مجبور تھا تاکہ وہ اپنا ارمان پوا کرسکے۔ طالب کو اس وقت امید کی ایک کرن نظر آئی جب ایک سرکاری ملازم اشتیاق خان، جس کو سرکاری نوکری دلانے کا دعویٰ تھا، نے طالب سے پانچ لاکھ روپیے وصول لئے تاکہ وہ طالب کو اچھی خاصی سرکاری نوکری دلا سکے۔
طالب اس خوش فہمی میں مہینوں کیا سالوں سال اس انتظار میں رہا، آج نہیں کل میری سرکاری نوکری ضرور ملنے ہی والی ہے ۔ اشتیاق خان طالب کو مہینوں برخیلے دیتا رہا کہ سرکار بدل گئی ہے تو کبھی آفیسر بدل چکے ہیں کبھی ایک بہانہ تو کبھی دوسرا بہانہ دے کر اسی فریب میں سالوں سال نکال دیئے ۔ دن مہینوں میں مہینے سالوں میں گزرتے گئے۔ اوپر سے تو طالب کے ذاتی اخرجات بھی بڑھتے گئے، جن کی طالب کو روز مرہ کی زندگی میں وقتًا فوقتًا ضرورت تھی اور وہ موں چرا چرا کر ماں باپ سے وصول کرتا ۔ طالب کی امیدیں اب غروب ہونے کو تھیں۔ کیوں نہ ہوتیں؟ لیت و لعل کی نفسیات میں عمر کی سیڑیاں چڑھ چکا تھا ۔ آخر کار اشتیاق خان نے پانچ لاکھ روپے ہضم کر لئے ۔
آخر طالب تنگ آکر دوستوں سے ایک ایک کرکے پرائیویٹ سیکٹر میں جانے کی خواہش ظاہر کرنے لگا۔ خود بھی لاکھ کوششوں کے باوجود اور دوستوں نے بھی انتہائی کوشش کی لیکن ان کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ بھی نہ آسکا کیونکہ طالب کے لیت و لعل نے اسے ادھیڑ عمر میں پہنچایا تھا ۔
طالب کو اس وقت یہ بات سن کر بیحد صدمہ پہنچا جب معلوم پڑا کہ اب اسے پرائیویٹ جاب بھی مل نہیں سکتی۔ کیوں کہ وہ اُوور ایج ہوچکا تھا
���
اومپورہ ہائوسنگ کالونی بڈگام ،موبائل نمبر؛9906971488