ریحانہ کوثر، پونچھ
گھریلو تشدد محض اس ملک کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا اس تشویش ناک صورت حال سے گزر رہی ہے۔ ہر سماج میں یہ مسئلہ موجود ہے،کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے۔ مجموعی طور سے دیکھا جائے تو دنیا کی ایک تہائی خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔تشدد محض مارپیٹ کا نام نہیںبلکہ ذہنی طور پر پریشان کرنا اور اُسے اس کا حق نہ دینا بھی تشدد ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سخت قوانین ہونے کے باوجود ملک میں ایک وسیع پیمانے پرایسا ہورہا ہے۔اس کی شکار خواتین ہی نہیں بلکہ نوعمر لڑکیاں بھی ہورہی ہیں۔ اکثرملکوں کے دیہی علاقوں میں یہ سلسلہ چلا آرہا ہے، جہاں پڑھنے لکھنے کی عمر میں لڑکیوں کا اسکول جانا بند کراکے گھر کے کاموں میں لگا دیا جاتا ہے۔اگرچہ ان میں پڑھنے کا شوق ہوتا ہے لیکن والدین اُن کی خواہشوں کو اہمیت نہیں دیتے۔ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یوٹی جموں و کشمیر کے سرحدی علاقہ پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے گاؤں سیڑھی چوہانہ میں بھی نوعمر لڑکیوں کے ساتھ گھریلو استحصال کے ایسے واقعات عام ہیں۔یہاں ایسے کئی گھر ہیں جہاں نوعمر لڑکیاں اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہیں۔تعلیم حاصل کرنے کے ان کے شوق کے باوجود انہیں اس سے محروم کرکے گھرکے کاموں میں لگا دیا گیا ہے۔گاؤں کی ایک 17سالہ نوعمرلڑکی حفیظہ بی بتاتی ہے کہ’’میں نے دسویں تک پڑھائی کر کے میرا سکول جانا بند کردیا گیا،اور گیارہویں میں ایڈمشن نہیں لے پائی کیونکہ میرے گھر والوں نے مجھے آگے پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔ جب میں پڑھنے کا نام لیتی ہوں تو مجھے دھمکی دی جاتی ہے کہ تو گھر کا کام کر، کوئی پڑھنے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ گھر کا کام کر ے گی تو تُجھے سسرال میں بھی عزت ملے گی، پڑھائی تیرے کام آنے والی نہیں ہے۔
حفیظہ کہتی ہے کہ میری دو اور بہنیں ہیں۔ ایک کا نام رفیظہ بی دوسری صفۃ بی ہے، ہم تینوں بہنیں گھر کا سارا کام کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہم بہت دور سے گھاس کاندھے پر اٹھا کر لاتی ہیں، لکڑیاں بھی جنگل سے کاٹ کر لانی پڑتی ہیں، پانی لانے کے لئے تین کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔ جھاڑو، پوچھا، برتن دھونا، کپڑے دھونا، گھر کی پوری صفائی کرنے کے ساتھ ساتھ مال مویشی کو چارہ ڈالنا، گوبر ڈالنا، مکی گوڈی کرناوغیرہ ہماری زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔بقولِ حفیظہ’’ جب میں باقی لڑکیوں کو اسکول جاتے دیکھتی ہوں تو دل بہت ملول ہو جاتا ہے، اُس وقت میرے سر پر گوبر کی ٹوکری ہوتی ہے جبکہ اُنکے کاندھوں پر کتابوں کا بیگ ہوتا ہے،میرا بھی سپنا تھا کہ میں ڈاکٹر بنوں اور اپنے علاقہ کے لوگوں کی خدمت کروں،مگر میرے سارے سپنے ادھورے رہ گئے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ میں یہ کبھی نہ سمجھ سکی کہ لوگ گھر کے کاموں کو اہمیت کیوں نہیں دیتے ہیں؟یہ خیال عام ہے کہ گھر کا کام کوئی کام ہی نہیں ہے جبکہ گھریلو کام کاج آسان نہیں ہوتا ہے۔دراصل گھر میں کام کرنے والی خاتون کو الہ دین کا چراغ سمجھا جاتا ہے۔ اگر کبھی تعاون کی بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ تم کام ہی کیاکرتی ہو؟
اس سلسلے میں گاؤں کی نائب سرپنچ جمیلہ بی، جن کی عمر 35 سال ہے، تسلیم کرتی ہیں کہ ہمارے گاؤں میں لڑکیوں میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔تاہم وہ اس کی کئی وجوہات بھی بتاتی ہیں۔ان کے مطابق کہیں کسی گھر کی معاشی حالات ٹھیک نہیں، تو کہیں گھر والے خودبیدار نہیں ہیں۔جس کی وجہ سے لڑکیوںکی زندگی کم عمر میں ہی گھریلو کام کاج تک ہی محدود رہتی ہے۔ آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنا، گھر کے سبھی افراد کے لئے کھانا بنانا،ان کے کپڑے دھونا، چکی سے آٹا پیسنا، دھان کا کام وغیرہ وغیرہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے۔ کم عمرلڑکیاں ایسے کام بھی سر انجام دیتی ہیں جو نمایاں نہیں ہوتیں،جیسے چھوٹے بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال کرنا ہے۔علاوہ ازیں مردوں کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹانا پڑتا ہے۔ان کے مطابق لکڑیاں جمع کرنے کے لئے نو عمر لڑکیوں کا جنگل جانا انہیں جنسی تشدد کے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ آج کے اس دور میں لڑکیاں اپنی تعلیم بھی گھر والوں کے لئے ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ کئی والدین کا خیال ہے کہ آج اگر لڑکی اسکول جائیں گی تو راستے میں کئی طرح کی پریشانیاں آئیں گی اور انہیں بد نام ہونے کا بھی ڈر لگا رہتا ہے،جس کے سبب لڑکیوںکو ا سکول نہیں بھیجتے ہیں۔ ایک مقامی باشندہ فیض الحسین عمر چالیس سال، نے معاشرے کی تنگ نظری کا نقاب اُتارتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکیاں گھریلو کام کرنے کی مشینیں ہیں، انہیں اور کسی بھی قسم کا حق نہیں۔کئی جگہوں پر خواتین کو گھر کے کسی اہم کام میں شریک تک نہیں کیا جاتا بلکہ پاؤں کی جوتی تصور کیا جاتا ہے،عورتوں کےتمام فیصلے مرد ہی کرتے ہیں۔انہیں پڑھنا ہے، مستقبل میں کیا بننا ہے ،اس کا فیصلہ خود لڑکی نہیں کر سکتی ہے۔گویاوہ کوئی بے جان شے ہے، کہ جسکا دل کرے، اُسکے ساتھ کھیلےاور جیسا چاہے،اُس کےساتھ سلوک کرے۔فیض الحسین کا خیال ہے کہ خواتین اور لڑکیاں جب تک خود اپنی خاموشی نہیں توڑیں گی، خود اپنی آواز نہیں بنیں گی، تب تک ان معاملات میں کبھی کمی نہیں آسکتی ہے۔
سیڑھی جوہانا کی ایک نوجوان لڑکی نام گلناز اختر، عمر 25 سال ہے، ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ تشدد کا مطلب جسم کو زخمی کرنا ہے۔ تشدد صرف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی بھی ہوتا ہے۔خواتین کے وجود کی بنیادی نظریات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔اسے تعلیم سے محروم کر کےگھریلو کام کاج کرائے جاتے ہیں۔اُس سے ایسے سخت کام بھی کرائے جاتے ہیں جوایک مرد کے لئے بھی ممکن نہیں ہوتے ہیں۔یہاں پر لڑکیاں گھر بنانے کے لئے پتھر، سیمنٹ اور بجری بھی کاندھے پر اُٹھا کر لاتی ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ آج کل تقریباًہر گھر میں خواتین مختلف طریقوں سے استحصال کی شکار ہو رہی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے اور تعلیم کی کمی بھی۔ چھوٹی چھوٹی عمر میں لڑکیوں سے بھاری کام کروائے جاتے ہیں جو بعد میں بیماریوں کا باعث بنتی ہیں۔وہ سوال کرتی ہے کہ آخر کب تک لڑکیاں یہ ظلم و ستم سہتی رہیں گی؟
بہرحال،معاشرے میں خواتین کے مقام کی اہمیت کو کھلے دل اورکھلے ذہن سے تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ان ہاتھوں کو روکنا ہوگا جوان پر تشدد کے لئے اٹھتے ہیں۔خود لڑکیوں کو ان رسم و رواج کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہوگا جو انہیں تعلیم سے محروم کرتی ہیں۔یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2022کے تحت لکھے گئے ہیں۔ (چرخہ فیچرس)