نمونیا کے تحفظ سے ہوگا خوشحال بچپن

پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی سب سے زیادہ اموات نمونیا کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یونیسیف کی مانیں تو دنیا بھر میں قریب آٹھ لاکھ بچے ہر سال نمونیا سے مر جاتے ہیں۔ ان میں 153000 نوزائیدہ بھی شامل ہیں، اس لحاظ سے ہر 39 سیکنڈ میں ایک بچے کی موت ہوتی ہے۔ عالمی یوم نمونیا پر آئی رپورٹ کے مطابق نمونیا سے سب سے زیادہ بھارت میں نوزائیدہ بچوں کی موت ہوتی ہے۔ بھارت میں ہر سال قریب ایک لاکھ 90 ہزار پانچ سال سے کم عمر کے بچے نمونیا کی وجہ سے کال کے گال میں سما جاتے تھے۔ اس سال نمونیا سے مرنے والے بچوں کی تعداد 1.27 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ جو پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا 15 فیصد ہے۔ دنیا میں نمونیا سے مرنے والے پچاس فیصد بچے سب سہارا افریقہ اور ایشیا کے پانچ ممالک ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو، ایتھوپیا، انڈیا، نائجیریا اور پاکستان کے ہیں۔ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غریب اور کمزور نظام صحت والے ممالک میں ہی نمونیا سے بچوں کی موت ہوتی ہے۔ آلودگی، گندگی، غذائیت کی کمی اور صحت کی سہولیات تک رسائی میں دشواری کی وجہ سے نمونیا سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔
بھارت میں نیوبورن اموات شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2005 میں یہ شرح 37 فی ہزار تھی جو 2018 میں گھٹ کر 23 ہو گئی ہے۔ لیکن بہار، راجستھان، چھتیس گڑھ، اڑیسہ، اترپردیش اور مدھیہ پردیش میں نوزائیدہ اموات شرح قومی شرح 23 فی ہزار سے اب بھی زیادہ ہے۔ بالترتیب یہ شرح 25، 26، 29، 31، 32 اور 35 ہے۔ قبل از وقت ولادت، لوبرتھ ویٹ، کمزور اور زیادہ چھوٹے ہونے کی وجہ سے 30 فیصد نوزائیدہ بچوں کی موت ہو جاتی ہے۔ ان بچوں کو خصوصی، کنگارو مدر کئیر اور لائیو سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ 25 سے 30 فیصد بچے کمیونٹی کئیر کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً ولادت کے پہلے گھنٹہ میں ماں کا پیلا گاڑھا دودھ نہ ملنا۔ بریسٹ فیڈنگ سے محرومی، بچوں کو چھونے سے پہلے ہاتھ نہ دھونا، بچوں کو گود میں لینے یا اٹھانے میں لاپروائی برتنا ان کے لئے تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔ 
نمونیا متعدی بیماری ہے جو ہوا میں موجود بیماری کی ذرات سے پھیلتا ہے۔ اس کے ذرات کھلے میں رفع حاجت کرنے، منھ ڈھکے بغیر پھانسنے، چھینکنے یا تھوکنے سے ہوا میں جا سکتے ہیں۔ یہ بیکٹیریا یا پھنگی وائرس کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔
نمونیا پانچ قسم کا ہوتا ہے۔
 اول بیکٹیریل نمونیا : یہ مختلف بیکٹیریا کی وجہ سے اس وقت ہوتا ہے۔ جب عدم غذائیت، بیماری یا بزرگی کے باعث جسم کمزور ہو جاتا ہے۔ دوم وائرل نمونیا : یہ وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان فلو اینجا (فلو) جس کے بیکٹیریل نمونیا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ 
سوم مائیکو پلازمہ نمونیا : اسے ایٹی پیکل نمونیا بھی کہا جاتا ہے۔
 چوتھا ایس پریشن نمونیا ہے جو کسی کھانے، پینے، دھول یا گیس سے ہوتا ہے۔ اسے ٹھیک کرنا کبھی کبھی دشوار ہوتا ہے۔
 پانچواں فنگل نمونیا ہے یہ فنگل وائرس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کئی معاملوں میں اس کا علاج مشکل ہوتا ہے۔
 نمونیا کی وجہ سے بلغم والی کھانسی، بخار میں پسینہ یا کپکپی ہو سکتی ہے۔ سانس لینے میں دقت یا تیزی سے سانس لینا، سینے میں درد، بے چینی یا الجھن کا ہونا اور بھوک کم لگنا اس کی دیگر علامات ہیں۔ نمونیا سے بچائوکا سب سے کارگر اور آسان طریقہ ٹیکہ کاری ہے۔
نمونیا پھیپھڑوں کے ہوا کے تھیلوں کو سیال سے بھر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے بلغم والی کھانسی، بخار، ٹھنڈ لگتی اور سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ پیاس لگتی ہے زبان میلی ہو جاتی ہے۔ بھوک کم لگتی ہے کھانے کو دل نہیں کرتا۔ سانس تیزی سے چلتا ہے چھاتی میں پانی بھرے ہونے کی آواز آتی ہے۔ ہیلتھ ورکرز ان علامات کو دیکھ کر اور بچوں کے سانس لینے کی رفتار کو شمار کرکے اس کا پتا لگاتے ہیں۔ مثلاً پانچ ماہ کا بچہ ایک منٹ میں 50 مرتبہ سانس لیتا ہے۔ عمر کے لحاظ سے بچے کے سانس لینے کی رفتار الگ ہوتی ہے۔ اگر وہ مقررہ رفتار سے زیادہ تیزی سے سانس لے رہا ہے تو اسے نمونیا ہو سکتا ہے۔ ایسے میں گھریلو علاج کے بجائے فوراََ ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے۔ نمونیا کو کنٹرول کرنے کیلئے اینٹی بایوٹک دوائیں دی جاتی ہیں۔ نمونیا کا ٹیکہ لگا ہونے سے بچے اس مہلک بیماری سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسی لئے ڈاکٹر وقت پر ٹیکہ لگوانے کی صلاح دیتے ہیں۔ 
کووڈ میں بھی نمونیا جیسی کیفیت ہوتی ہے۔ یہ وائرس کے ذریعہ پھیلتا ہے۔ اس کا خطرہ کم کرنے کیلئے ہاتھ دھونے، ماسک استعمال کرنے، جسمانی فاصلہ بنانے اور صاف صفائی رکھنے پر زور دیا جاتا ہے۔ بچوں پر اس کا اثر بہت کم دیکھا گیا ہے۔ غذائیت کی کمی، آلودگی، گندگی، بزرگی اور بیماری سے قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔ جس کے سبب بیماری سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے کووڈ کا سب سے زیادہ خطرہ کمزوروں، بزرگوں اور بیماروں کو ہے۔ پچھلے دنوں دہلی میں کثافت کے بڑھنے کی وجہ سے کووڈ کے معاملوں میں اضافہ ہوا تھا۔ جس پر قابو پانے کیلئے دہلی حکومت نے آلودگی کم کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اس کے نتائج اب دھیرے دھیرے دکھائی دے رہے ہیں۔
 نوزائیدہ اور بچوں کو بچپن میں ہونے والی بیماریوں سے بچانے کیلئے حکومت یونیورسل ایمونائزیشن پروگرام کے تحت وسیع پیمانے پر مفت ویکسین فراہم کرتی ہے۔ نمونیا سے تحفظ کیلئے اس میں نیوموکوکل ویکسین شامل کی گئی ہے۔ PCV کو 2016 میں لانچ کیا گیا تھا۔ یہ 13 طرح کے نیوموکوکل بیکٹیریا سے بچوں کی حفاظت کرتا ہے۔ جن کی وجہ سے نمونیا ہوتا ہے۔ اس ویکسین کی تین خوراک میں دیا جاتا ہے۔ ابتدا میں PCV کو ہماچل پردیش، اترپردیش، بہار میں مہیا کرایا گیا تھا۔ اب پورے ملک میں نوزائیدہ اور بچوں کو نمونیا سے بچانے کے لئے اسے دیا جا رہا ہے۔ نمونیا کا خطرہ کم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کو وقت یہ حفاظتی ٹیکا دیا جائے۔ 
نمونیا سے بچنے کیلئے گھروں میں کھانا بنانے یا گھر کو گرم رکھنے کیلئے نامیاتی ایندھن اور کچا ملاوٹی تیل استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔ کیوں کہ 50 فیصد موتیں ہوا کی کثافت کی وجہ سے نمونیا سے ہوتی ہیں۔ گھر کی آلودگی کی وجہ 62 فیصد بچوں کو نمونیا کا خطرہ ہوتا ہے۔ بچوں کی قوت مدافعت کو بڑھا کر، عدم غذائیت کو دور کر، صاف صفائی کا اہتمام اور معیاری صحت کی سہولیات کو فراہم کر نمونیا کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ تربیت یافتہ ہیلتھ کارکنان کی موجودگی اور والدین کے ذریعہ بچوں کی معقول دیکھ بھال کے ذریعہ نمونیا سے ہونے والی اموات سے بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ حکومت اور عوام کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ نمونیا سے کسی بھی بچے کی جان نہ جائے۔ نمونیا کے تحفظ سے ہی بچوں کو صحیح بچپن نصیب ہوگا۔ اس سال دنیا نے نمونیا سے نوزائیدہ اور بچوں کو بچانے کا عہد کیا ہے۔ آیئے ہم بھی اس کا حصہ بنیں اور بچوں کو خوشحال بچپن دینے کا عہد کریں۔ 
رابطہ ۔ 9810371907