مولانا محمد راشد شفیع
ارکان اسلام میں کلمۂ طیبہ کے بعد سب سے اہم رکن نماز ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا اقامت ِنماز کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور اقامت کا مطلب یہ ہے کہ نماز کو تمام شرائط کی رعایت کرتے ہوئے حسن و خوبی اور کامل طریقے سے ادا کرنا،اور نماز کا ظاہری اور باطنی حسن اس میں ہے کہ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے، یہی درحقیقت نماز کو کامل طریقے سے ادا کرنا ہے ، یہی مقام احسان ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،’’ان تعبداللہ کأنّک تراہُ‘‘ یعنی احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر یہ نہ ہو سکے تو یہ یقین رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (صحیح بخاری،ج1)
خشوع اور خضوع کے معنی ہیں دب جانا، عاجزی سے اپنے آپ کو جھکادینا، قلبی خوف اور تواضع کی وجہ سے نگاہ کو پست رکھنا،اور بدن میں تواضع اور انکساری کا پیدا کرنا۔ نماز میں خشوع اختیار کرنے کے معنی یہ ہیں کہ صرف جسم کا ظاہر نہیں، بلکہ باطن بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے پوری طرح جھکا ہوا ہو، یعنی ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اسے نماز اس طرح پڑھنی چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا خوف اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کے پیش نظر ہو اور اس انسان کا دل دنیا سے بالکل غافل ہو اور دل نماز میں لگا ہوا ہو، ظاہری اعضاء میں بھی سکون، اطمینان ہو ، کوئی عبث اور بیکار کام نہ کرے جس سے دل خیالات کی طرف جائے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے سلف صالحین نماز اس طریقے سے ادا فرمایا کرتے، گویا کہ یہ ان کی آخری نماز ہے اور نماز کی حالت میں ان کے دل دنیا سے غافل ہوا کرتے اور انہیں یہ معلوم نہ ہوتا کہ باہر کیا ہو رہا ہے، وہ ظاہری اور باطنی اعتبار سے یکسو ہو کر نماز پڑھا کرتے تھے، قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں نماز کو خشوع وخضوع اور اطمینان وسکون کے ساتھ ادا کرنے کی بار بار تعلیم دی گئی ہے، چنانچہ سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:صبر اور نماز کے ذریعے مدد حاصل کیا کرو۔ بےشک، وہ نماز بہت دشوار ہے مگر جن کے دلوں میں خشوع ہے ،ان پر کچھ بھی دشوار نہیں ‘‘۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: تمام نمازوں کی خاص طور پر درمیان والی نماز (یعنی عصر کی) پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے باادب کھڑے رہا کرو۔(سورۃ البقرہ)
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، پھر نماز کے بعد نبی کریم ؐ کو سلام کیا۔ آپ علیہ السلام نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: جاؤ نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی،وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھ کر آئے، پھر نبی کریمؐ کو آکر سلام کیا تو آپؐ نے فرمایا: جاؤ نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی ،اس طرح تین مرتبہ ہوا،اس شخص نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپؐ مجھے نماز سکھائیے۔
آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھر قرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو۔ یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو۔(صحیح بخاری )
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نماز میں سے چوری کرے۔ صحابہ ؓنے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! نماز میں کس طرح چوری کرے گا؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے ادا نہ کرنا ( گویاخشوع وخضوع کے بغیر نماز ادا کرنے کو نبی اکرمؐ نے بدترین چوری قرار دیا)۔(المستدرک للحاکم کتاب التفسیر، باب شرح معنی الخشوع)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں، نبی کریمؐ ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے، لیکن جب نماز کا وقت ہوتا تو ہم ایسے ہو جاتے کہ گویا ایک دوسرے کو نہیں پہچانتے( یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے خوف اور عظمت کی وجہ سے تھا)(المعجم الکبیر)
یہی کیفیت نماز میں حضرات صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کی ہوا کرتی تھی کہ وہ نماز میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کو سامنے رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے ، ظاہری اور باطنی اعتبار سے سکون اور اطمینان سے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔
حضرت سیدنا حاتم اصمؒ سے ان کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا جب نماز کا وقت آ جاتا ہے تو میں پورا وضو کرتا ہوں، پھر نماز کی جگہ آ کر بیٹھ جاتا ہوں، یہاں تک کہ میرے تمام اعضاء پُرسکون ہو جاتے ہیں، پھر نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ معظمہ کوابرؤوں کے سامنے پل صراط کو قدموں کے نیچے جنت کو سیدھے ہاتھ کی طرف اور جہنم کو بائیں ہاتھ کی طرف، ملک الموت کو اپنے پیچھے خیال کرتا ہوں اور نماز کو اپنی آخری نماز کا تصور کرتا ہوں، پھر امید اور خوف کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ حقیقتاً تکبیر تحریمہ کہتا ہوں ،قرآن کریم ٹہر ٹہر کر پڑھتا ہوں، رکوع تواضع یعنی عاجزی کے ساتھ اور سجدہ خشوع کے ساتھ کرتا ہوں، بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھتا ہوں، دایاں پاؤں کھڑا کرتا ہوں، خوب اخلاص سے کام لینے کے باوجود یہی خوف رکھتا ہوں کہ نہ جانے میری نماز قبول ہوگی یا نہیں۔ (احیاء العلوم)اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)