ایس معشوق احمد
اکثر امیر گھرانوں میں افراط زر جھگڑے کا سبب بنتا ہے اور غریب گھرانوں میں سارے فساد کی جڑ زر کی قلت ہے۔ افلاس زدہ گھر مصیبتوں اور پریشانیوں کے مسکن ہوتے ہیں۔ یہاں بیماری کے پودے ایسے اُگ آتے ہیں جیسے حسب موقع بہار کے موسم میں باغوں میں سبزہ اُگ آتا ہے ۔ تکالیف نے کب غربت زدہ گھرانوں کے دروازے چھوڑے تھے جو ایک مہلک وبا کا نزول ہوا اور جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔بیکار اور بے روزگار انسان اکثر چڑ چڑے ہو جاتے ہیں اور ان کی قوت برداشت کم ہوتی ہے۔غصہ جب برداشت کے باندھ کو توڑتا ہے تو اس سیلاب کی زد میں اکثر بے بس اور لاچار بیوی بچے آجاتے ہیں اور غصہ ان کے معصوم جسموں پر نیلے نشانات ثبت کرتا ہے۔
چند سال قبل سائمہ کی شادی اپنی ہی حیثیت کے گھرانے میں ہوئی تھی۔سائمہ نے جب سسرال کو گھر جیسا ہی پایا تو اس کو اس ماحول میں ڈھلنا زیادہ دِقّت طلب نہ لگا۔کہتے ہیں کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں تب ہی تو گھر میں خوشیوں کی بہار سے دیواریں مکینوں کی ہنسی سن کر شاد ہوتی ہیں اور جب غموں اور پریشانیوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑے تو گھر والوں کی سسکیاں اور آہیں دیواروں کو رنجیدہ کر دیتی ہیں۔ امجد اور سائمہ کی شادی ہوئی تو گھر میں کبھی جھگڑے سے پیدا سسکیوں کی سننساہٹ اور کبھی پیار کے سریلے گیتوں کی آواز گونجتی رہتی تھی۔ لڑائی ،پیار، روٹھنا ،منانا، چیخنا چلانا، غرض وہ سب کچھ ہوتا تھا جو عام گھروں میں ہوتا ہے اور جس کی شاہد اکثر مفلوک الحال گھروں کی دیواریں ہوتی ہیں۔ امجد کی محنت و مشقت سے ہی گھر کا آتشدان دہکتا تھا۔افلاس کے باوجود گزر بسر ہوہی رہی تھی۔کل کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا۔اچانک پورے عالم میں ایک وبا نے سر اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس بیماری نے عالم کو گھیرلیا۔نگر نگر اور قریہ قریہ اس بیماری کے چرچے ہونےلگے اور ان چرچوں سے لوگ خوف زدہ ہوئے۔ایک دن ریڈیو پر اعلان ہوا کہ ملنہار گاؤں میں چار مریضوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ پورے گاؤں میں سناٹا چھا گیا ۔سارے لوگ گبھرائے ہوئے تھے ۔ ہمسائیوں نے ایک دوسرے کے گھر آنا تو دور دروازوں کی طرف تکنا بھی چھوڑ دیا تھا اور سب اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے رہے۔ گاؤں میں پولیس عملہ نے ڈیرہ ڈالا جس نے سارے گاؤں کا محاصرہ کیا۔انسان حرکت اور محنت کرنا چھوڑ دے یا پرندہ اڑان بھرنا ترک کرے تو آب و دانہ کے لالے پڑے جاتے ہیں۔ایسا ہی کچھ گاؤں کے ساتھ ساتھ امجد کے گھر میں بھی ہوا۔بندشوں اور قدغن سے اب مزدوری ملنا تو دور پورے گاؤں کے لئے گھروں سے باہر نکلنا دشوار تر ہوگیا تھا۔جو کچھ گھروں میں تھا چند دن اس پر گزارہ ہوا اور پیٹ کی آگ بجھتی رہی لیکن کچھ عرصے بعد امجد کے گھر کا آتشدان سرد پڑ گیا۔انسان دو صورتوں میں انسانیت کو بھول جاتا ہے‘‘ بھوکا ہو یا دولت کے ڈھیر پر بیٹھا ہو۔کام نہ ہو تو کمائی بھی نہیں ہوتی اور رزق کے لیے پیسے ایسے درکار ہوتے ہیں جیسے مریض کے لئے دوائی ۔ آب و دانہ کے لیے امجد تگ و دو کرتا لیکن باہر کرفیو نافذ تھا۔اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا تھااور پولیس کی لاٹھیاں بھی سہنی پڑتی تھیں۔ چند روز صبر کے پھل کھائے لیکن جب بھوک بے قابو ہوئی تو امجد نے اس سیٹھ کے گھر کا رخ کیا جس کے یہاں وہ کام کیا کرتا تھا۔ دروازے پر ہزار دفعہ دستک دی لیکن خوف اور وسوسوں نے جو دروازے بند کئے تھے وہ نہ کھلے اور امجد کو مایوس واپس لوٹنا پڑا ۔باہر جب بس نہ چلے تو اکثر اوقات بے بس مرد گھر پہنچ کر اپنا غصہ بیوی کے جسم پر انڈیل دیتے ہیں۔حالات نے امجد کو بے بس اور لاچار کر دیا تھا۔باہر جس اذیت اور پریشانیوں کا اسے سامنا کرنا پڑتا گھر آکر وہ بیوی سے جھگڑا کرکے انہیں کم کرنے کی سعی کرتا تھا۔اوروں کی طرح امجد بھی بہت مضطرب تھا اور اب اس کی ہمت بھی جواب دے چکی تھی۔وہ رزق کی تلاش میں گھر سے باہر نکل جاتا لیکن بھوک کی وجہ سے اس کا کمزور جسم اب کرفیو کی خلاف ورزی کرکے پولیس عملے کی مزید لاٹھیاں نہیں کھا سکتا تھا۔بعض دفعہ مجبوری اور ضرورت انسان سے سانس کے بدلے عزت و عصمت کی قربانی مانگتی ہے۔کام نہ ملنے کی وجہ سے گھر میں اب روز ہی فاقے ہوتے تھے۔میاں بیوی تو کسی حد تک برداشت اور پانی پر گزارہ کرلیتے تھے لیکن بچوں کا تڑپنا اور بھوکے سونا ان کے لیے اذیت کا سبب تھا۔بچے رونا شروع کردیں تو ماں باپ کا سکون اور آنکھوں کی نیند روٹھ جاتی ہے۔اسی بے سکونی میں غرباء کی مدد کرنے والے افراد اور اداروں سے بے بس امجد نے رابط کیا ۔انہوں نے اسے اس مخصوص پروگرام میں دعوت دی جہاں وہ ان لوگوں کے ساتھ تصویریں اور ویڈیو بناتے تھے جن کی وہ امداد کیا کرتے تھے۔ چند پروگراموں میں اس نے شرکت بھی کی لیکن وہ شرمسار ہوکر گھر خالی ہاتھ لوٹ آتا تھا۔دکھاوا کرنے والے یہ ادارے لوگوں کی امداد کرنے کے دعوے تو کیا کرتے تھے لیکن یہ کسی کے سرد پڑے آتشدان کے لیے چنگاری کا سامان مہیا نہیں کرتے تھے۔نمائش کے ان سوداگروں کے ہاں سفارش اور جان پہچان کی بھی ضرورت پڑتی جو امجد سے کوسوں دور تھی۔کوئی فرد یا ادارہ ایسا نہ تھا جو خفیہ طور لوگوں کی مدد کرتا۔ امجد جب روز ہی نراش گھر لوٹتا تو سائمہ کو بھی نراشا گھیر لیتی۔چند روز اس نے یہ صورتحال دیکھی اور ایک روز وہ کمال الدین کے گھر چوری چھپے پہنچ گئی۔کمال الدین کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بنا کسی غرض کے غریبوں کی مدد کر رہا ہے۔ ہر روز اس کی تصویر کسی نہ کسی اخبار میں آتی تھی اور سوشل میڈیا پر بھی اس کے خوب چرچے تھے۔ حویلی نما گھر میں پہنچ کر سائمہ نے کمال الدین کے بارے میں پتا کیا تو اسے ایک نوکر نے بتایا کہ صاحب فلاں گاؤں میں مفت راشن تقسیم کرنے گئے ہیں اور دیکھو صاحب ٹی وی پر آرہے ہیں۔تمہیں اگر صاحب سے ملنا ہے تو کل آنا۔ سائمہ تھوڑی دیر کے لیے کھڑی کمال الدین کی تقریر ٹی وی پر سننے لگی اور اسے یقین ہوگیا ہے کمال الدین نیک آدمی ہے اور وہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔گھر پہنچ کر سائمہ نے امجد کے سامنے کمال الدین کی نیکیاں گنوائی اور اسے یہ بھی بتایا کہ کل میں صاحب کے پاس جاکر اس سے مدد مانگوں گی۔ اگلے روز وہ کمال الدین کے گھر پہنچی۔کمال الدین نے جب سائمہ کی صورت دیکھی تو اس کے ساتھ لین دین اور سوداگری کا رویہ اپنایا اور یہ شرط رکھی کہ امداد کے عوض وہ ایسے ہی چوری چھپے ایک دو مرتبہ یہاں آکر اس کے عدم تاہل کو دور کرے۔
���
کولگام کشمیر، موبائل نمبر؛8493981240