مہر النساء بیوہ ہوکر واپس آگرہ لوٹ کر آئی اور لگ بھگ چار برس تک جہانگیر بادشاہ کی سوتیلی ماں رؔقیہ بیگم کی جی حضوری (پرسنل سٹاف) میں رہی۔چونکہ عام طور پر وہ بُجھی بُجھی سی اور دل ملول رہا کرتی تھی اس لئے فیصلہ ہوا کہ اُسے کشمیر میں مغلوؔں کے ایک خاص حلیف اور معتمد ملک ؔحیدر ساکنہ چاڈورہ ناگام کے پاس روانہ کردیا جائے اور اُس روانگی میں یہ مصلحت ملحوظ رکھی گئی کہ ایک تو کشمیر میں رہ کر دلفریب ماحول و موسم ،رنگین نظاروں ،بہاروں اور عطر بیز ہوائوں سے اُس کا پژمژدہ دل کھل اُٹھے گا اور ساتھ ہی ملک ؔصاحب اُس کو بادشاہ جہانگیرؔ کی ملکہ بننے پر آمادہ کرسکیں گے جو اُس کی مہمان نوازی میں رہ کر ممکن ہوسکتا تھا ۔بادشاہ اپنے اختیار اور شاہی رعونت میں آکر گرچہ کچھ بھی کر گذر نے کا متحمل تھا مگر وہ اس پیار کے رشتے کو پیار کے پھولوں سے ہی مزّین کرنا چاہتے تھے۔دراصل تاجدار مغلیہ سلطنت نے چند برس قبل جشنِ نوروز کے موقعہ پر اُسے دیکھا تھا اور اُس کی سادگی اور بے پناہ حُسن دیکھ کر بادشاہ اپنے دل کی بازی اُسی موقعہ پر ہار گیا تھا۔اس لئے وہ چاہتا تھا کہ پیار کو پیار سے حاصل کرنا چاہئے تاکہ ایک روحانی اور دائمی یگانگت پیدا کرکے ایک مضبوط اور اٹوٹ رشتہ قائم ہو ۔اسی لئے جہاں پناہ ،مہر اؔلنساء کو خوش دلی اور بہ رضا و رغبت اپنی زوجیت میں لینا چاہتے تھے۔
کشمیر کے چاڈورہ گائوں جو شہر سرینگر سے لگ بھگ سو لہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،ایک لمبے قیام سے ایک تو مہر النساؔء کا دل بہل گیا ،بیوگی کی تلخ یادیں جاتی رہی دوسرے اُس کو ایک موافق مذہبی اور تمدنی ماحول ملنے سے ایک خاطر خواہ تبدیلی آئی کیونکہ ملکؔ حیدر کا گھرانہ بھی شعیہ فکر سے تعلق رکھتا تھا۔اُس نے اپنی رضا مندی دے دی اور اس طرح سے وہ بادشاہ جہانگیر ؔکی ملکہ بن گئی ۔شادی کے موقعہ پر بادشاہ کی عمر بتالیس برس اور مہر النساء کی عمر چونتیس برس تھی۔جہانگیر نے اُسے نور جہاںؔ کا لقب دیا اور وہ ملکہ نوؔر جہاںکے نام سے تاریخ کے اوراق پر رقم ہوگئی۔اُس وقت بادشاہ کی حرم سرا میں بیگمات ،کنیزوں ،باندیوں اور داشتائوں کی تعداد لگ بھگ ایک ہزار تھی مگر نور جہاؔں کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد اُس نے اور کوئی شادی نہیں کی اور نہ ہی دوسری بیگمات کی طرف زیادہ التفات کیا۔
مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے تب تک کسی اور بادشاہ کو ایسا زن مرید نہیں پایا جیسا ملکہ نور جہاں ؔنے جہانگیر کو بنا رکھا تھا ۔یہ بات بھی عجیب سی لگتی ہے کہ ملک کے سارے معاملات اُس کے ہی مرضی و مشورے سے طے ہوتے تھے ۔ہر ایک بات ،ہر ایک قانون پر اُس کا اِزن و اقرار لازمی تھا ۔شاہی حکم علیہ العالیہ نور جہاؔں بیگم بادشاہ تحریر ہوتا تھا ۔بادشاہ نے سارے اختیارات اُسی کو تفویض کر رکھے تھے ،ہر قضا و قدر کا مالک ملکہ کو ہی بنا رکھا تھااور وہ واحد مغل ملکہ تھی جس کے نام سے سِکے ڈالے جاتے تھے۔
نور جہاں ؔپردہ نشین رہا کرتی تھی اور کوئی اُس کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی جرأت نہیں کرتا تھا ۔وہ جتنی عالی ہمت ،حوصلہ مند، مدبر ،منتظم ،عالمہ اور سخی تھی ،اتنی ہی زیر ک ،بذلہ سنج اور حاضر جواب بھی تھی۔ایک بار کشمیر میں تختِ سلیمان پر سیر و تفریح کے دوران نوکر اور مددگار کم ہونے کے باعث یا یونہی ازراہِ تفنن طبع نور جہاؔں خود ہی حلوہ تیار کرنے لگی تو جہانگیر ؔکو شرارت سوجھی ،اُس نے فٹ سے مصرعہ لگایا۔۔۔ع
’شکر فروش مائے حلوہ گری نشست ‘یعنی شکر بیچنے والی یعنی میری محبوبہ آج حلوہ بنانے کے لئے بیٹھی ہے ۔تو نور جہاں بھی کہاں چُپ بیٹھنے والی تھی ،اُس نے بھی فوراً دوسرا مصرعہ جڑ دیا ۔۔ع
’یعنی کہ’ زیر تخت سلیمان پری نشست‘مطلب یہ کہ تخت ِ سلیمان کے نیچے پری بیٹھ گئی ہے۔
اسی طرح ایک بار آخر رمضان پر جہانگیر بادشاہ ہلال ِ ِعید دیکھنے محل کی چھت پر آیا ۔تلاش کے بعد ہلال یا عید کا چاند نظر آنے پر بادشاہ نے برجستہ مصرعہ داغ دیا ۔۔’’ہلال ِ عید بہ اوج فلک ہویدا شُد‘۔نور جہاں بھی ساتھ میں کھڑی تھی ،اُس نے فَٹ سے دوسرا مصرعہ جڑ دیا۔’کلید مے کدہ گم گشتہ بود پیدا شُد‘۔مطلب یہ کہ بادشاہ نے کہا تھا کہ عید کا چاند آسمان کی بلندیوں سے نمودار ہوا۔نور جہاں نے اپنے مصرعے میں کہا کہ شراب خانے کی جو چابی گم ہوگئی تھی وہ اب مل گئی ہے۔
غور کرنے کی بات ہے بلکہ نورجہاں بیگم کی فرزانگی کی داد دینا پڑتی ہے کہ یہ صرف حسبِ حال مصرعہ ہی نہیں بلکہ گہرے معنیٰ سے مزّین ایک چُلبلا اشارہ بھی ہے۔سیدھی سی بات ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں نائو نوش سے کما حقہ احتراز ہی برتا جاتا ہے اور ہلال عید نظر آنے سے نہ صرف رمضان کا مہینہ اختتام پذیر ہوا ،نہ صرف عید کے تہوار کا اعلان ہوا بلکہ بادۂ ساغر پر جو قدغن تھی وہ بھی جاتی رہی۔اس مصرعے میں میکدے کی چابی ملنا ایک ذو معنی شرارتی کنایہ ہے۔
معروف مورخ اینؔ سی رائے کے مطابق نور جہاؔں سلطنت کی حقیقی حکمران تھی ۔وہ دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح جھروکے میں بیٹھ کر لوگوں کی شکایات سُنا کرتی تھی۔وہ سخت محنتی تھی اور سلطنت کا کوئی معاملہ اُس کی نظر سے نہ بچا ہوا تھا ۔وہ بہت فیاض اور سخی تھی،غریبوں کی مددگار اور بے کسوں کی والی تھی۔اُس نے تقریباً پانچ سو مسلمان لڑکیوں کی شادی کرادی اور جہیز بھی دیا ۔وہ بلا کی ذہین ،موقع شناس اور مستقل مزاج عورت تھی۔بڑی سے بڑی سیاسی پیچیدگی اُس کے سامنے چٹکیوں میں حل ہوجاتی۔بڑے بڑے مدبر اور وزراء اُس کے پُر مغز فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے۔
وہ ایک سلجھے ہوئے ادبی ذوق کی مالک تھی اور فارسی زبان و ادب کے ساتھ ایک خاص لگائو رکھتی تھی۔اُس کا جمالیاتی ذوق نہایت پاکیزہ اور خود بھی کئی خوبصورت اشعار کی خالق تھی۔اُس نے مجموعی طور مغل دربار کی عظمت کو چار چاند لگانے میں نمایاں حصہ لیا۔
(مضمون جاری ہے ۔اگلی قسط انشاء اللہ اگلی سنیچر وار کو شائع ہوگی)
رابطہ۔9596041360
���������