نظمیں

سراب اور حقیقت

نگاہِ حق نگر محوِ تماشائے گلستاں ہے
مآلِ گُلشنِ ہستی پہ گریاں اور خنداں ہے
عجب مجموعۂ اضداد یہ جشنِ بہاراں ہے
کہیں سرسبز و شاداںہے کہیں بربادو ویراں ہے
نگاہِ دیدئہ عبرت ازل سے مرثیہ خواںہے
فنا اِس بزمِ ہستی کے تعاقب میں خراماں ہے
سمجھ بیٹھا جسے دارالبقا مدہوش انساں ہے
نہیں دارالبقا، مُلکِ فنا کا ایک زنداں ہے
اِدھر بھی موت رقصاں ہے اُدھر بھی موت رقصاں ہے
اُمیدوں کا مگر پھر بھی بہر سواک چراغاں ہے
بہت دُشوار اِس دارالفنا میں دردِ ہجراں ہے
بقا بعد از فنا کا ہی تصوّر اُس کا درماں ہے
گرفتارِ بلا دُنیا میں بھی رہتا یہ انساں ہے
پکڑتی موت پھر اس کو ہے جس سے یہ گُریزاں ہے
جواں لختِ جگر کی موت سے جو دِل کہ گریاں ہے
وہ جیسے زندہ ہے درگور، خود گورِ غریباں ہے
چمن میں خوش نوائی کر رہا مُرغِ خوش الحاں ہے
ارادے سے مگر صیاّد کے غافل وہ ناداں ہے
کوئی اپنی اُمیدوں کے چمن میں گُل بہ داماں ہے
کوئی حسرت بھرے دامن پہ اپنے اشک افشاں ہے
 
بشیر احمد بشیر(ابن نشاطؔ) کشتواڑی
موبائل نمبر؛7006606571
 
 

تم یاد آتے ہو

ہر لمحہ تم یاد آتے ہو ،میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں
دل یادوں سے بہلاتی ہوں آنکھوں میں اشک پروتی ہوں
جب مست ہوائیں چلتی ہیں احساس سنورنے لگتا ہے
جو ٹیس ہے دبنے لگتی ہے جو زخم ہے بھرنے لگتا ہے
ماحول مہکنے لگتا ہے رنگین ہواؤں کے صدقے
خوشبو سی بکھرنے لگتی ہے دل ایسی فضاؤں کے صدقے
جذبات کی لہروں میں بہہ کر اک طوفاں سے ٹکراتی  ہوں
جو دور دور تک پھیلی ہے اس دُنیا میں کھو جاتی ہوں
جب زُلف پریشاں ہوتی ہے میں حوصلہ اس کو دیتی ہوں
لہراتا ہے آنچل میرا میں اس کی بلائیں لیتی  ہوں
ایسے میں چھم سے آ جاؤ آنکھیں یہ بچھی ہیں راہوں میں
تم مجھ کو لگا لو سینے سے اور بھینچ لو اپنی بانہوں میں
پھر یاد تمہاری آئی ہے پھر آج میں  آہیں بھرتی ہوں
ڈستی ہے مجھے. یہ تنہائی اور آج.بھی  تل تل مرتی ہوں
ہر لمحہ تم یاد آتے ہو. ہر لمحہ تم یاد آتے ہو
 
سجاد پونچھیؔ
338جھولاکاں محلہ، جموں
موبائل نمبر؛9419104353
 

بھلا یہ ماجرا کیا ہے؟

گُلِ لالہ و سوسن کو چمن میں خار تم بولے
جنونِ شوق میں ناداں اماں کیا یار تُم بولے
تصور میں جو گھر بیٹھے نشاطؔ و ہارونؔ دیکھا
چنارؔو سروؔ کو دیکھا پئے آزارتُم بولے
یہ کیسی بادِ سحری اب چمن میں چل پڑی آذرؔ
خزاں کی زد میں ہیں نالاں یہ برگ و بار تُم بولے
ہے بہتر آپ سے پُوچھیں بَھلا یہ ماجرا کیا ہے
ہے کیوں زیرِ سِتم تُو اور تیرا دیاّر تم بولے
یہاں چوگانِ ہستی کا نرالا زاویہ دیکھا
بدلتی نقش ہے اپنے یہاں سرکار تُم بولے
جو دیکھا باغِ ہستی میں سوالی آںکھ کا منظر
ہنرمند ہم نے دیکھے ہیں سبھی بیکار تُم بولے
کبھی جب چشمہ شاہیؔکے رواں جھرنے سے یہ پوچھا
ابھی آتی ہے کوئی کیا یہاں گُلنار تُم بولے
خلق ماحول میں ایسے گذارے زندگی کیسے
امیرِ شہر تک دیکھا یہاں لاچار تُم بولے
اسیرِ گردشِ دوراں ارم کا خطہ ہے عشاقؔ
معمہ آپ وہ جانے، وہ ہے مختار تُم بولے
 
عشاق کشتواڑی
 کشتواڑ، موبائل نمبر؛9697524469
 
 
کب صبح آتی یہاں ہے اور کب ہوتی ہے شام
لوٹ کر شاید نہ آئیں، دن ہوئے ہیں وہ تمام
جب دِلوں میں تھی محبت اور نظر میں احترام
سوچ اپنی ہے غلط، ہر دِل میں کوئی چور ہے
اِس لئے اُلٹے ہی ہوتے جارہے ہیں سارے کام
ہم بھی کرتے جاتے ہیں تو بہ کی نیت پر گناہ
رفتہ رفتہ لیتی ہے، قدرت بھی اپنا انتقام
رات کو مانا کہ ہم رہتے ہیں سجدوں میں محو
دِن میں لیکن ہوتے ہیں شیطان سے بھی ہمکلام
دوست مانیں گے کسے، دشمن سمجھ لیں گے کسے
ہر بغل میں اِک چھری ہے اور منہ میں رام رام
 قعرِ غفلت میں پڑے ہیں، کچھ پتہ چلتا نہیں
صبح کب آتی یہاں ہے اور کب ہوتی ہے شام
کچھ اثر ہوگا نہیں، واعظ تیرا اس قوم پر
یہ رِواجوں کی ہے پابند یہ ہے رسموں کی غلام
 
اے مجید وانی
احمد نگر، سرینگر
موبائل نمبر؛9697334305
 
 
اپنے دل کی دھرتی پر
میں اپنے دل کی 
دھرتی پر 
اْگنے نہیں دیتی 
جھاڑیاں ،
نفرتوں کی 
تلخیوں کی 
رنجشوں کی ۔
میں اپنے دل کی 
دھرتی پر 
اْگائے رکھتی ہوں ،
چاہتوں کے 
محبتوں کے 
راحتوں کے 
گْلاب سدا ۔
میں اکثر تلخ 
لہجے ،
رویئے ،
اور باتیں 
بھول جاتی ہوں ۔
اپنے دل کی 
دھرتی پر 
محبتوں کے 
پھول کِھلاتی ہوں ۔
مجھے اچھا لگتا ہے 
محبتوں میں جینا 
اور
دعاؤں میں رہنا 
شمیمہ صدیق شمیؔ
چک سیدپورہ شوپیان