نظریہ ارتقاء اور قرآنی مساوات روشنی

عمران بن رشید۔ سوپور
سورہ حضرات کی یہ آیت کئی اعتبارات سے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔اس آیت کے مختلف پہلو ہیں۔اور ہر پہلو اپنی سطح پر منفرد اہمیت اور خصوصیت پر مبنی ہے۔بنیادی طور پر ایک تو یہ آیت اسلام کا نظامِ عدل وانصاف متعین کرتی ہے اور دوم یہ آیت ہر انسان کو اس کے نقشِ پا کی لوٹاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے’’یٰاَیُّھَالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَجَعَلْنَٰکُمْ شُعُوْبًاوَّ قَبَٓائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ ‘‘اے لوگو!ہم نے تم (سب) کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور (پھر)تم کو کنبوں اور قبیلوں میں (تقسیم) کردیا تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو‘اللہ کے نزدیک تم سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے ‘یقین مانو کہ اللہ دانااورباخبر ہے[آیت؍13]۔
انسان کی تخلیق اور ابتداء سے متعلق دنیامیں مختلف ںطریات پائے جاتے ہیں ۔فلسفیوں نے اس ضمن میں عجیب و غریب عقیدے گھڑ لئے ہیں ۔کوئی کہتا ہے کہ انسان خود بخود وجود میں آیا ہے اور کوئی کہتا کہ انسان اپنا خالق خود ہے‘جیسے جرمنی کے مشہور فلسفی لدوِگ فورباخ (ludwig Feverback) کا قول ہے  God is nothing otherthan man himself  یعنی انسان ہی دراصل اپنا خالق ہے یا کوئی خالق نہیں سوائے انسان کے خود کے نفس کے۔ساینسدانوں کے یہاں بھی ایک طویل مدت تک یہ مسئلہ زیرِ بحث رہا کہ آیا انسان کا کوئی خالق ہے یا یہ محض ذروں کے اختلاط سے خودبخود وجودمیں آیاجسے ساینس کی دنیا میں نظریہ ارتقاء (evolutional theory)  کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔اول یہ نظریہ انیسویں صدی کے مشہور برطانوی سائنسداں چارلس ڈارونcharles darwin[1809-1882] نے پیش کیا۔اس ضمن میں مولاناعبدالرحمان کیلانی ؒ لکھتے ہیں ’’اس یعنی ڈارون کا کہنا ہے کہ زندگی کی ابتداء ساحلِ سمندر پر پایاب پانیوں سے ہوئی ۔پانی کی سطح پر کائی نمودار ہوئی ‘پھر اس کائی کے نیچے سے حرکت پیدا ہوئی یہ زندگی کی ابتداء تھی۔پھر اس سے نباتات کی مختلف شکلیں بنتی گئیں ‘جرثومہ حیات ترقی کرکے حیوانچہ بن گیا ‘پھر یہ حیوان بنا ۔یہ حیوان ترقی کرتے کرتے پردار اور بازوئوں والے حیوان میں تبدیل ہوا۔پھر اس نے فقری جانور کی شکل اختیار کی‘پھر انسان کے مشابہ حیوان بنا اور اس کے بعد انسان بنا[مقالاتِ مولاناعبدالرحمٰن کیلانی؍صفحہ 259؍مقالہ نظریہ ارتقاء]۔ڈارون کا یہ نظریہ کئی اعتبارات سے محلِ نظر ہے ۔اول تو ڈارون کے پاس اس نظریہ کی کوئی دلیل نہیں اور دوم اگر ایسا ہوا ہوتا تو پھر انسان پر آکر یہ سلسلہ تھم کیوں گیا۔انسان نے آگے ترقی کرکے کوئی اور شکل اختیار کیوں نہ کی؟لہذا یہ نظریہ قابلِ قبول نہیں ٹھرسکتا۔ہمارے یہاں سرسید احمد خان اس نظریہ سے کافی متاثر ہوئے  اور اس نظریہ کو قرآن کی آیات کا غلط استنباط کرکے صحیح ثابت کرنے کی مذموم کوشش بھی کی۔بہرحال سائنسدانوں کے اگرچہ اس عقیدے کو اعلانیہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے کہ انسان کی تخلیق کے پیچھے کوئی خالق بھی ہے تاہم اُن کے پاس اس کے رد میں کوئی ٹھوس دلیل بھی نہیں ہے ‘بلکہ اُن کے بعض تجربات اور نظریات بالواسطہ یا بلا واسطہ قرآن کے نظریہ تخلیق کی ہی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بہرحال آیتِ زیرِ مطالعہ میں فرمایا گیا ہے’’یٰاَیُّھَالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی‘‘یعنی اے لوگو!ہم نے تم (سب) کو ایک مرد اور ایک عورت (کے جوڑے)سے پیدا کیا۔ظاہر سی بات ہے کہ یہاں مرد اور عورت کے جوڑے سے مراد آدم ؑاور اُن کی زوجہ (جن کا نام تورات اور اجنیل میں ہوا آیا ہے)ہے۔ اسی جوڑے سے تمام بنی نوحِ انسان وجود میں آئے۔یہی مضمون سورہ نساء کی پہلی آیت میں بھی آیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’یٰایّھاالناس التقوا ربّکم الذی خلقکم من نفسٍ واحدۃٍ وّ خلق منھا زوجھا وبث منھما رجالاً کثیراً و نساء ‘‘اے لوگو!اپنے پروردگار سے ڈرو ‘جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا ہے۔اور اسی سے اس کی بیوی کو پیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث آئی ہے جس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ روزِ محشر لوگ آدم کے پاس جاکر کہیں گے کہ اے آدم! آپ انسانوں کے باپ ہیں اور اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایاتھا۔آدم چونکہ مٹی سے تخلیق کئے گئے تھے اور آپ کی زوجہ کو آپ کی پسلی سینکالا گیا۔پھر باقی نوحِ انسانی ایک فطری نظام کے تحت ان دونوں سے وجود میں لائی گئی ،یوں یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔انسان کو اس کی اصل حقیقت اور بنیاد سے آگاہ کرانے کے بعد فرمایا گیا’’ وَجَعَلْنَٰکُمْ شُعُوْبًاوَّ قَبَٓائِلَ لِتَعَارَفُوْا‘‘اور پھر تم کنبوں اور قبیلوں تقسیم کردیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔یہ کلمات اسلام کے حسن و خوبصورتی کو واضح کرتے ہیں۔دنیا جو اس وقت تباہی کے دہانے پر امن وسکون کے لئے ترس رہی ہے۔قتل و غارت گری کا بازار ہرسو گرم ہے،لوگ فخر وغرور اوراحساسِ برتری (superiority complex) اور انّا پرستی میں جی رہے ہیں۔ایسے میں قرآن کے یہ چند کلمات پوری دنیا کے انسانوں کے لئے امن وآشتی اور بھائی چارے کا سادہ مگر مضبوط اور مستحکم اصول سامنے رکھتے ہیں۔یہ کلمات اول تو امت مسلمہ کو متضمن ہیں اور پھر دنیا کے تمام لوگ اس حکم میں شامل ہیں۔چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقعے پر مسلمانوں کے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہیں ،اس اجتماع میں تین لاکھ کے آس پاس لوگ شامل تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ایھاالناس انَّ ربّکم واحدٌ و انَّ اباکم واحدٌ‘کلکم لِآدمَ و آدمُ  من ترابٍ انَّ اکرمکم عنداللہ اتقاکم ولیس لعربییّ فضلٌ علیٰ عجمی الا بالتّقویٰ‘‘اے لوگو!یقیناً تمہارا خالق ایک ہے اور باپ بھی ایک۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے ہے ۔یقیناً تم میں اللہ کے نزدیک باعزت وہ ہے جو اللہ سے ڈرے۔کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں صرف تقویٰ میں۔[مسند احمد]۔