لبوں پر جزب ہوکر رہ گئی جب تشنگی میری
تو صحرا سے نکل کر کچھ سمندر سامنے آئے
جہاں وادئ گلپوش میں علاقہ لولاب اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہے وہیں یہ خطہ دینی اعتبار اورعلم وادب کی وجہ سے بھی ذرخیز ہے۔ یہ خطہ بلند پایہ مفکر،روحانی شخصیت اور دینی پیشوا مولانا انور شاہ کشمیری کا مسکن بھی رہا ہے۔ دینی اعتبار سے بلند یہ سرزمین ادبی اعتبار سے بھی سیراب ہے، یہاں بہت سارے ادیب اور قلمکاروں نے جنم لیا ہے ۔ان ہی قلمکاروں میں سے نذیر جوہر بھی ایک ایسے قلمکار ہیں ،جنہوں نے اپنے ادب پاروں سے ادبی دنیا میں دھوم مچائی ہے۔ آپ ایک سیاسی گھرانے کے چشم وچراغ ہونے کے باوجود بھی ادبی دنیا سے وابستہ رہے، آج میں ان کے ہی ایک افسانوی مجموعہ "اور بھی غم ہیں" پر خامہ فرسائی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا یہ افسانوی مجموعہ اصلوب زبان،لب ولہجہ اور تکنیکی اعتبار سے بہت ہی عمدہ ہے۔ زیر نظر افسانوی مجموعہ کا نام اس میں شامل افسانوں سے کافی مماثلت رکھتا ہے کیونکہ اس کتاب میں شامل افسانے ہمیں اس پُر آشوب دور کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے اُس دنیا میں لے جاتے ہیں، جہاں شریف لوگ اپنی معصومانہ خصلت کی وجہ سے فاسق وفاجر لوگوں کے ہتھے چڑھتے ہیں اور دنیا پرستی ہی نے شریف لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بناکے رکھا ہے۔ افسانہ ’’تماشے روز روز کے‘‘ میں آپ کو افسر شاہی کا ماحول اور عام لوگوں کے خلاف ان کا رویہ بھی نظر آرہا ہے، جہاں ایک آفیسر اپنے ایئر کنڈیشنز کمرے میں کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ کے لمبے لمبے کُش لگا رہا تھا اور پاس میں بیٹھا ایک شخص بار بار اس کا توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتا ہے مگر اس آفیسر کو اپنی افسر شاہی پر فخر ہے کہ وہ اینٹی کرپشن کے افسران تک چکمہ دے گیا ہے، اس کام میں اس کاساتھ ایک چپراسی بھی دیتاہے، جس کو جمالی صاحب نے کافی کچھ سکھایاہوتا ہے۔ آج کے معاشرے میں بھی کئ ایسے جعفر جمالی ہیں جو غریب عوام کو دودو ہاتھوں لوٹ رہے ہیں اور ان کے کردار اور گفتار میں کوئی فرق نہیں آتی۔ نذیر جوہر ایک ایسے نباض قلمکار ہیں جنہوں نے اپنی فنکاروی اور تکنیک سے ایسے افسانے پیش کئے ہیں جو معاشرے میں پھیلی بے راہ رویوں اور دوسری خرابیوںکی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کے قلم میں وہ دم ہے،کہ ایک سے بڑھ کر ایک افسانہ قارئین کےلئے پیش کرتے رہتے ہیں۔ زیرِ نظر افسانوی مجموعہ’’ اور بھی غم ہیں‘‘ میں بھی نذیر جوہر ہماری توجہ سماج کے اُن مسائل کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں،جو دن بہ دن طول پکڑ رہے ہیں۔مثلاً گھر میں بیٹی کا پیدا ہونا۔ لوگ آج کل بیٹیوں کے جنم کو رحمت نہیں زحمت سمجھ کے پریشانی اور صدمے کا شکار رہتے ہیں۔ کئی لوگ بیٹیوں کو یا تو زندہ درگور کرتے ہیں یا کبھی ان کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر میں پھینک کر خود کواس پریشانی سے آزاد سمجھتے ہیں،مگر یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کی بیٹی کو کن مصیبتوں سے گزرنا پڑے یا خدانخواستہ اُن کو اگر کتے، گیدڑ یا لومڑی اپنا نوالہ بنائیںآخرت میں اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا جواب دے پائیں۔نذیر جوہر نے ’’گلاب کوٹھی‘‘ میں سماج کے اُسی بدنما داغ کی طرف دھیان دلانے کی کوشش کی ہے اور قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جیسے اپنی آنکھوں سے یہ احوال دیکھ رہا ہے۔ کئ قارئین یہ بھی سوال کریں گے کہ گورکن ہی کیوں اس کہانی میں شامل ہے، کوئی دوسرا کیوں نہیں؟ میرا اُن کے لئے یہ جواب ہے کہ قبرستان ہمیشہ بستیوں سے الگ تھلگ اور گاؤں سے کچھ دور ہوتے ہیں، جہاں پر لوگوں کا آنا جانا بہت کم ہوتا ہے اور کئ ضمیر فروش لوگ انہی جگہوں پر اپنے جائز یا ناجائز نو مولود بچوں کو چھوڑ کر آتے ہیں تاکہ اُنہیں کوئی نہ دیکھےاور اُ ن کی گناہوں پر پردہ پڑا رہے۔ یہ افسانہ پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ واقعاً ابھی بھی ہمارے سماج ایسے خرافات میں جھکڑاہوا ہے،جن کا قلع قمع آج سے چودہ سو سال پہلے کیا گیاتھا۔
’’ڈسٹ بن میں نوزائید بچہ ایک چھوٹے سے کمبل میں لپٹا ہوا پڑا تھا اور اپنے ہاتھ پیر ماررہا تھا۔‘‘ باپ رے باپ…….. لاحول ولا قوۃ!‘‘سرتاب محو حیرت رہا اور بچے کو بغور دیکھنے لگا‘‘ بچی ہے ۔جھبی وہ بڑبڑایا ۔ وہ بچے کی جنس کو پہچان گیا تھا۔‘‘
اسی طرح سےایک دوسری برائی جو اس وقت ہمارے اس معاشرے میں موجود ہے ،وہ ہے خاوند اور بیوی کی آپسی رسہ کشی۔ جس میں ان کے والدین اور بال بچے پِس کر رہ جاتے ہیں، گھر برباد ہوجاتے ہیں، رشتے ناطے توڑے جاتے ہیں ،وجوہات محض یہ ہوتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کو سمجھنے اور پرکھنے میں غلط فہمی ہوتی ہے، جس سے گھر مین تنائوکاماحول پیداہوجاتا ہے۔ باہمی چپقلشیں بڑھ جاتی ہیں،نتیجتاً وہ کورٹ کچہری تک پہنچ جاتے ہیں اور عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر زندگی برباد ہوجاتی ہے۔ افسانہ ’’کوئی ہمیں رُلائے کیوں‘‘ میں بھی ایسے ہی گھرانے کی داستان بیان کی گئی ہے، جس میں شہزاد بخت نے ایک طرف اپنے والدین کو اپنی بیگم کی وجہ سے کھویا ہے ،وہیں دوسری طرف بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے فرحان کو بھی گِنوا بیٹھاہے، یہ دوسری بات ہے کہ فرحان نے جج کے سامنے اپنی توتلی زبان میں اپنے دادا دادی کے ساتھ رہنے کی حامی بھر لی اور خوشی سے چیخے چلائے جا رہا تھا ۔’’ میں۔۔۔دادا کے۔۔۔پاش لہوں گا۔۔۔۔۔میں دادی کے۔۔۔شاتھ لہوں گا۔۔۔میں ۔۔ان کے شاتھ لہو۔۔‘‘مگر اس وقت تک ان کے گھر کا سارا سکون تہس نہس ہوچکا ہوتا ہے۔وادی کشمیر میں یہ نظارے لگ بھگ ہر گاؤں اور ہر قریہ میں دکھائی دے رہے ہیں اور یہاں کی کچہریوں میں بھی ساس ،نند اور بہو، داماد کے قصے و کہانیاں زیادہ نظرآرہی ہیں ……..!
سماجی برائیوں کو دیکھ کر ان کو افسانوی رنگ دینا ہرکسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ایساکام کئی گنے چنےافراد ہی کرسکتے ہیں۔نذیر جوہر ان ہی میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ادبی دنیا میں اپنا لوہا منوالیا۔ آپ ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہنے کے باوجود بھی قلم کاری کرتے رہے، اُن کے قلم کی روانی دیکھ کر فخر ہورہا ہے کہ ہمارے ہاں دورحاضر میں بھی ایسے ادیب موجود ہیں جواپنے قلم سے اور اپنی فنی صلاحیت سے ادب کی خدمت کرتے ہیں۔ نذیر جوہر کےاخلاقی پہلو کو اگر دیکھا جائے تو اس آپ میں ایک بہترین اور ہمدرد انسان نظر آرہا ہے اور یہی ہمدردی ان کے افسانوں میں بھی چھلک رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں مٹھاس پیدا ہوئی ہے۔ان کے افسانوں میں افسانہ کم مگر حقیقت زیادہ نظر آرہی ہے ،فرضی قصے ہونے کے باوجود بھی لگتا ہے کہ یہ حقیقت ہےجو ہمارے معاشرے میںرچ بس چکی ہے۔ نذیر جوہر نے اس کتاب میں جو افسانے پیش کئےہیں، سبھی شاہکار نظر آرہےہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نذیر جوہر بذات خود ایک پُر خلوص، ہمدرد،انسان دوست شخصیت ہیں ۔اُن کے افسانوںمیںایسا ہی رنگ چھلکتا نظر آتا ہے۔آپ کے افسانوں میں جہاں ایک پیغام دکھائی دیتا ہے وہیں ہمدردی کی بُو بھی آتی ہے۔ اُن کے اب تک دو ناول ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ اور’’مہربان کیسے کیسے‘‘کے علاوہ اپنے برادر عزیز،سابق ریاستی وزیر مشتاق احمد لون کی سوانح عمری ’’زندگی یوں تمام ہوتی ہے‘‘ اور ایک سرگزشت ’’باتیں ہیں باتوں کا کیا‘‘ شائع ہوچکی ہیں۔ آپ نے کئی ٹیلیویژن سیریل بھی لکھے ہیں جن میں’’کنارہ مل گیا ہوتا‘‘اور’’آنکھوں آنکھوں میں‘‘ کافی مقبول ہوئے ہیں۔ ان کے افسانوں میں سماجی وسیاسی مسائل کی طرف بھی اشارہ مل رہا ہے۔ اردو زبان پر دسترس ہونے سے آپ کے افسانوں میں ایک نئی جان پیدا ہوئی ہے، اس افسانوی مجموعے میں ایک اور افسانہ ’’اور بھی غم ہیں‘‘جس پر اس کتاب کا نام رکھا گیا ہے، بھی بہت عمدہ افسانہ ہے، جس میں جہیز کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے معصوم اور غریب بیٹیوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں۔ اس افسانے میں ایک غریب ولاچار باپ کی بے بسی کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ کس طرح سماج میں رہ رہے چاپلوس وبدکردار لوگ غریب بیٹیوں کا استحصال کرتے ہیں اور اُن کے خواب چکھنا چور کردیتے ہیں۔ جہیز کے ناسور نے اب تک بے شمار لڑکیوں کی زندگیاں چھین لی ہیں اور ہزاروں گھر بربادکردئے ہیں۔ اس معاملے میں لکھنا یا افسانہ پیش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔الغرض اس افسانوی مجموعہ کا مطالعہ کرنے سے بہت سارے واقعات کھل کرسامنے آتے ہیں ۔یہ افسانوی مجموعہ سنتالیس افسانوں پر مشتمل ہے اور سبھی افسانے ایک انسان کواپنےدماغ کی گرہیں کھولنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اگر ہر افسانے کا الگ الگ تبصرہ کیا جائے گا تو ایک ضخیم کتاب بن جائے گی ۔ میرے اس مختصرتبصرے کا مقصد صرف یہی ہے کہ نذیر جوہر کے افسانوی مجموعہ کا مطالعہ کسی بھی قاری کے لئےموجودہ دور کےنام نہاد ترقی پسندسماج کے در پردہ حقائق سے روشناس کرانے میںکافی حد تک مدد گارثابت ہوگا۔
(رابطہ۔7006259067 )