سرینگر//ریاستی حکومت نے نجی اسپتالوں اور کلنکوں میں ڈاکٹروں کا معائنہ فیس طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جو وادی میں مریضوں کیلئے دستیاب سہولیات کی بنیاد پر نجی اسپتالوں اور کلنکوں کو زمروں میں تقسیم کرکے انکی فیس طے کرے گی۔ واضح رہے کہ ریاستی حکومت نے 2006میں اپنے ایک حکم نامہ کے ذریعے پراوٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کی فیس طے کی تھی، تاہم اس حکم نامے پر آج تک عمل نہیں ہوسکا ۔وادی کے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو ملنے والے علاج و معالجہ میں روز بہ روز آنے والی تنزلی نے جہاں مریضوں کو نجی اسپتالوں اور پرائیوٹ کلنکوں کا رخ کرنے پر مجبور کیا ہے وہیں دوسری جانب نجی اسپتالوں اور کلنکوں کے مالکان مریضوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر ہزاروں روپے بطور معائنہ فیس وصول کررہے ہیں۔محکمہ صحت کا ماننا ہے کہ نجی اسپتالوں اور کلنکوں کے مالکان مریضوں سے ہزاروں روپے بطور معائنہ فیس حاصل کررہے ہیں جبکہ آسودہ حال مریضوں سے پیسہ اینٹنے کیلئے مفت ہوائی ٹکٹ کا لالچ دیکر مریضوںکو بیرون ریاست منتقل کیا جاتا ہے۔سرینگر کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج مریض محمد اقبال نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا’’ 700روپے جمع کرکے ڈاکٹر نے 5منٹ تک معائنہ کیااور ایم آئی آر کرانے کیلئے کہا‘‘ ۔ محمد اقبال نے بتایا کہ ایم آئی آر کیلئے 6ہزارروپے جمع کرنے کے بعد ڈاکٹر نے دومنٹ کے اندر دوائی لکھی جسکی قیمت صرف 240روپے تھی۔ نجی اسپتال اور پرایئویٹ کلنک سیاسی اثرورسوخ کا استعمال کرکے قائم کئے جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا پورا پتہ ہوتا ہے کہ حکومت انکے خلاف کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائے گی اور اس لئے غیر ضروری تشخیصی ٹیسٹ کے ذریعے مریضوں سے پیسے اینٹنے میں مصروف ہیں۔ وزیرمملکت برائے صحت آسیہ نقاش نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ ہم نے چیف سیکریٹری ہیلتھ کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایک کمیٹی تشکیل دیکر نجی اسپتالوں اور کلنکوں کا معائنہ فیس طے کرے‘‘۔انہوں نے کہا ’’ میں نے چیف سیکریٹری ہیلتھ سے کہا ہے کہ وہ نجی اسپتالوں اور کلنکوں میں دستیاب سہولیات کی بنیاد پر زمرہ بندی عمل میں لائیں تاکہ معائنہ فیس بھی مریضوں کو دستیاب سہولیات کی بنیاد پر طے کی جاسکی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ نجی کلنکوں اور اسپتالوں میں تربیت یافتہ عملہ تعینات ہو اور اس کیلئے ہم تمام نجی اسپتالوں اور کلنکوں سے عملے کی تفصیلات جمع کریں گے۔ انہوں نے کہا ’’ وادی میں کافی ہنر موجود ہے اور بہت سارے نوجوانوں نے مختلف شعبہ جات میں تربیت حاصل کی ہے تو تربیت یافتہ عملہ نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔