حافظ پیر شبیر احمد
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت دنیا میں مبعوث ہوئے اور نبوت سے سرفراز کئے گئے، وہ دور دنیا کا نہایت عجیب اور تاریک ترین دور تھا، ظلم وستم، ناانصافی و حق تلفی، جبر وتشدد، خدافراموشی و توحید بیزاری عام تھی، اخلاق وشرافت کا بحران تھا، اور انسان ایک دوسرے کے دشمن بن کر زندگی گزارہے تھے، ہمدردی اور محبت کے جذبات، اخوت و مودت کے احساسات ختم ہوچکے تھے، معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑااور سالہاسال تک جنگ وجدال کا سلسلہ چلتا تھا، ایسے دور میں آپؐ تشریف لائے، اور پھر قرآنی تعلیمات ونبوی ہدایات کے ذریعہ دنیا کو بدلا،عرب وعجم میں انقلاب برپاکیا، عدل وانصاف کو پروان چڑھایا،حقوق کی ادائیگی کے جذبوں کو ابھارا،احترامِ انسانیت کی تعلیم دی، قتل وغارت گری سے انسانوں کو روکا، عورتوں کومقام ومرتبہ عطاکیا، غلاموں کو عزت سے نوازا،یتیموں پر دستِ شفقت رکھا،ایثاروقربانی، خلوص ووفاداری کا مزاج بنایا،احساناتِ خداوندی سے آگاہ کیا، مقصدِ حیات سے باخبر کیا،رب سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑا،جبینِ عبدیت کو خدا کے سامنے ٹیکنے کا سبق پڑھا یااور توحید کی تعلیمات سے دنیا کو ایک نئی صبح عطا کی، تاریکیوں کے دور کا خاتمہ فرمایا،اسلام کی ضیاپاش کرنوں سے کائنات ِ ارضی کو روشن ومنور کردیا۔ آپؐ کے بعث کے مقاصد میں سے پہلامقصدرسول اللہ ؐنے امت میں تلاوتِ قرآن کی عظمت واہمیت کو عام فرمایا اور اس کے فوائد وبرکات سے آگاہ کیا اورانسانوں کے ہاتھ میں خدا کا یہ عظیم کلام سونپا، جس کی وجہ سے انسانیت قعر ِ مذلت سے نکلی اور تلاوتِ قرآن کا ایسا ذوق ان کو عطا کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحاب کرامؓ کو سیری حاصل نہیں ہوتی تھی ۔بلاشبہ یہ اس عظیم کتاب کی بدولت ہے جو صاحب کتاب سیدنا محمد رسول اللہؐ نے بطور امانت انسانوں تک پہنچایا اور اس کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرکے دکھایا۔ حضرات صحابہ کرام کی زندگیوں میں انقلابی اثرات اسی کلام نے پیدا کئے اور وہ انسانوں کو رہبر اور رہنما بنے بھی تو اسی قرآن کی تعلےمات پر عمل کرکے بنے ۔قرآن کریم کی تلاوت کرنے کے ساتھ اس کے معانی ومطالب انسانوں کو سمجھانا یہ بھی نبی کی عظیم ذمہ داری رہی اور آپؐ نے الفاظ ِ قرآنی کے ساتھ معانی قرآن بھی بتلائے۔نبی کریمؐ نے مرادِ خداوندی کو سمجھایا اور آیات ِ قرآنی کی تشریح کرکے امت کو اس کے مقصد سے آگاہ کیا کہ اللہ تعالی کیا چاہتے ہیں ۔قرآن مجید کوپڑھنے کے ساتھ اس کے معانی اور مضامین میں تدبر کرنا، اس کے مفہوم میں غور و فکر کرنا، تفاسیر قرآن کی روشنی، نبی کریم ؐکی تشریحات اور صحابہ کرامؓ کے عمل سے قرآن مجید کے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے نہایت چونکادینے والے انداز میں فرمایایہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ۔اس لئےقرآن کریم کو سمجھنا اس کا حق ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا بھی اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے ۔نبی اکرم کا تیسرا مقصد دنیا میں بھیجے جانے کا یہ ہے کہ آپ نے انسانوں کے دلوں کوپاک صاف کریں ، آپ نے جہاں معاشرہ کی اجتماعی اصلاحی کوششیں کی، وہیں انفرادی طور پر بھی دلوں کی اصلاح کا اہتمام فرمایا۔خداکی حضوری کا احساس پیداکیا،روزِ قیامت کی بازپرس کی فکر پیداکی،۔یہی نتیجہ تھا کہ معمولی درجہ کا گناہ بھی سرزد ہوجاتا یا تنہائیوں میں کسی جرم کا ارتکاب کرلیتے تو فوری رسالت مابؐ کے حضور حاضر ہوکر اس کی تلافی کروالیتے۔ چوتھا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔حکمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔آپ ؐ کی ذاتِ گرامی میں انسانوں کے لیے ہر اعتبار سے نمونہ موجود ہے۔ آپؐ کی تمام تر تعلیمات انسانیت کے لیے سعادت وکامیابی کی علامت ہیں۔آپؐ نے جو کچھ فرمایااس پر عمل پیرا ہونے میں ہی فلاح دارین پوشیدہ ہے۔آپؐ نے ان چار بنیادی مقاصد کے تحت انسانیت کی تعمیر و ترقی کا کام انجام دیا اور ایک بگڑے ہوئے معاشرہ اور تباہی کے دہانے پر جاچکی دنیا کو سنوارااور بہتر سے بہتر انداز میں ان کی تربیت فرمائی۔تلاوتِ قرآن کا شوق پیدا کیا،تعلیماتِ قرآنی پر عمل پیرا ہونے کا مزاج بنایا،دلوں میں موجود خرابیوں کی اصلاح، نفرت وعداوت، حسد وبغض، اور بہت ساری بیماریوں سے نجات پانے کی فکر بیدار کی اوردلوں میں اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے ان کو کامیاب وکامران فرمایا۔قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے یہ چار چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں کہ اس کی روشنی میں خود کو سنوارنے اور معاشرہ کو سدھارنے کی کوشش کی جائے۔امت میں تلاوتِ قرآن کا مزاج پیدا کیاجائے جو برکتوں اور رحمتوں کا ذریعہ ہے، معانی قرآن کو سمجھتے ہوئے مطالباتِ قرآن کو پوراکرنے کی دعوت دی جائے، جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مردہ دلوں کو زندہ کرنے اور روح کی بیماریوں کا علاج کروانے کے لیے اہل اللہ سے رجوع ہونے اور اللہ کے نیک بندوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی تلقین بھی ضروری ہے،جس سے ذات کی بھی اصلاح ہوگی اور معاشرہ کی بھی اور سنتوں سے زندگیوں کو روشن کرنے، گھر اور ماحول میں سنت کی تعلیمات کو عام کرنے کی محنت کو عام کیا جائے۔
رابطہ۔9700038580, 8106343207
[email protected]