قیصر محمود عراقی
مجید انسانیت کے واسطے ماضی ، حال اور مستقبل کا آئینہ دار ہے ، جس میں نصیحت آمیز اور عبرت انگیز واقعات موجود ہیں ۔ قرآن مجید ہمیں تنبیہ کر تا ہے کہ روئے زمین پر وہ قومیں نشان عبرت بنا دی گئیں جنہوں نے فطرت کے متعین اصولوں کا انکار کرکے اللہ پاک کے منتخب نمائندوں ( رسولوں اور انبیاء کرام ) سے بغاوت کی ۔ یہ قومیں مال و دولت ، عزت و ثروت ، سلطنت و حکومت ، شان و شوکت ، طاقت و قوت میں اپنی مثال آپ تھی ، اُن جیسی قومیں دنیا میں کبھی وجود میں نہیں آئی تھیں ، مگر جب انہوں نے نظام قدرت کے خلاف بغاوت کر کے شہوانی اور نفساتی خواہشات کی پیروی کو اپنا نصب العین بنایا تو وہ قومیں ایسا نشان عبرت بنا دی گئیں کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو بھی ان کی داستان عبرت سنائی تا کہ آنے والی نسلیں اپنی کا میابی کی منزلیں تلاش کر نے سے قبل ایک نظر ماضی کے ان صفحات عالم پر بھی ڈالیں کہ کہیں تم بھی عزت کی معراج ان اشیا کو نہ سمجھ لو جیسے ماضی کی بر باد قوموں نے سمجھا تھا ، پھر ان کے ہا تھ سوائے نا کامی و نامرادی کے کچھ بھی نہ آیا۔
حکومت کا میابی کی علامت نہیں ہے ، جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت ہی تمام کا میابیوں کا منبع ہے وہ فرعون ، نمرود، شداد ، چنگیز ، ہلاکو اور سکندر اعظم کے انجام کو بھی دیکھ لیں کہ ان جیسی طاقت ور حکومتیں آج تک کسی کو میسر نہ آسکیں ، تو کیا وہ حکمران کا میاب ہو گئے تھے ؟ فرعون سے تو اللہ نے نہ تو اس کی حکومت چھینی اور نہ ہی اس کی فوج ، تمام طاقتیں ہو نے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرعون کو دریا برد کیا ، صرف یہ بتانے کے لئے کہ دیکھ لو ، اگر فرعون کو فوجوں اور نہ ختم ہو نے والے لشکروں پر گھمنڈ تھا تو یہ سب مل کر بھی اسے غرق ہو نے سے نہیں بچا سکے ، فوج تو خود کو بھی نہ بچا سکی تو فرعون کو کیا بچاتی ؟ بے شک فرعون کے انجام میں لوگوں کے لئے عبرت کا سامان موجود ہے۔ اسی طرح حکومت حصول عزت کا ذریعہ بھی ہے، دیکھ لو نمرود کو کہ تخت نشیں اور ملک گیر کرنے والی سپاہ بھی اسلحوں سے لیس ساتھ کھڑی ہے مگر نمرود کے ایوان میں کسی کو بھی اس وقت تک داخلے کی اجازت نہیںہے جب تک آنے والا نمرود کے سر پر زور دار ایک جوتا نہ ماردے، بتائواسے کون عزت کہے گا؟ کیا یہ عزت ہے؟ خالق کائنات تمام طاقتوں اور عزتوں کا دینے والا ہے۔ غور کریں کہ نمرود کو اس کے فوج کے سامنے سر پر جوتے لگائے جارہے ہیںاور فوج مارنے والے کو کچھ بھی کہہ نہیں سکتی۔ ملک گیری کی خاطر حرص وہوس کے پتلوں نے لاکھوں انسانوں کو تہہ تیغ کیا مگر کیا اس کے باوجود وہ خود کو موت سے بچا سکے، کیا دنیا نے انہیں عبرت ناک انجام سے دوچار ہوتا ہوا نہیں دیکھا۔
صفحاتِ عالم پر جن حکومتوں کی دہشت وہیبت کا راج تھا آج ان کا دور دور تک نام ونشان نہیں ملتا ۔آج ان پر کوئی رونے والا بھی موجود نہیں، ان کی قبروں کی نشاں تک مٹ گئے بلکہ زمانے نے ان ظالموں سے ایسا انتقام لیا کہ ان کے حسین وجمیل جسم مٹی کھاگئی، پھر ہوائوں نے ان کی جسم خوردہ مٹی کو فضائوں میں اڑادی اور یوں ان کی ہستیاںکائنات میں ریزہ ریزہ کرکے بکھیر دی گئیں۔ آج جن لوگوں نے مال ودولت ، اقتدار اور عہدوں کو طاقت اور کامیابی سمجھا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اللہ کو بھول گئے اور رسولوں سے بغاوت کی ، ان کا مال وزر انہیں اللہ کی پکڑ سے اور موت کے آہنی شکنجے سے نہ بچا سکا ۔ مثال کے طور پر یہ قوم سبا ہے جسے اپنی زراعت پر بڑا فخر ہے ، دائیں بائیں تاحد نگاہ ان کے باغات کا ایک وسیع جال بچھا ہوا ہے ، پانی سے بھرے ہوئے ڈیم ، شہر میں ہر طرف امن وسکون ہے اور وہ قوم پروردگار کی مہربانیوں سے بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں ، اللہ کے رسولوں نے تو ان سے کہا کہ اللہ کی نعمتوں میں سے کھائو، پیواور اللہ کا شکر اداکرو۔ مگر انہوں نے سرکشی کا راستہ اپنایااور نبیوں پر غرانے لگے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو اسے لے آئو ، تمہاری باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی بھرپور اور پرُ لطف زندگیاں موت سے بدل دیں اور ایک رات جب یہ قوم آنے والے عذاب سے بے خبر مطمئن سوئی ہوئی تھی ، اچانک ان پر موت نے رقص شروع کیا ، ڈیم کے دہانے ٹوٹ گئے اور پانی نے ساری قوم کو تہس نہس کرکے رکھ دی۔ اگلے روز وہاں زندگی کا نام ونشان مٹ چکا تھا ۔ شعیب ؑ کی قوم اپنی تجارتی اور اقتصادی حیثیت پر نازاں تھی ، چنانچہ انہوں نے شعیب ؑ کی تعلیمات کا انکار کیا اور کہااسے شعیب جائو تم اپنا کام کرو اور ہمارے تجارتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرو ، یہ ان کی قوم کا سچی تعلیمات کے مقابلے میں باغیانہ جواب تھا ۔ پھر اللہ کا غیبی نظام حرکت میں آیا اور قوم ِ شعیب ؑ تین طرح کے عذابوں کا شکار ہو کر دنیا سے مٹ گئے اس وقت جب وہ عذاب الہیٰ میں گرفتار ہو چکی تھی تجارتی منڈیا اور ان کے ما و ذر سے بھرے شہر انہیں اللہ کے عذاب سے نہ بچا سکے ۔
اسی طرح ایک قوم عاد ہے جنہیں اپنے طاقتور ہونے پر بڑا غرور تھا ، ان کا بچہ تین سو سال کے بعد جاکر عمر بلوغ تک پہنچتا تھا، ان کی عمریں ہزار ہزار سال ہوا کرتی تھیں، اس پورے عرصے میں نہ ان کے سر میں درد ہوتا تھا نہ بخار ، زمین میں جمے ہوئے مضبوط کھجور کے درخت ایک ہاتھ مار کر اکھاڑ پھینکتے۔ یہ لوگ حضرت ہودؑسے کہنے لگے کہ ’’ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے‘‘اللہ تعالیٰ نے ان کی طاقت کی ہوا نکالنے کا فیصلہ کیا ، فرشتوں کو حکم ہوا کہ ہوا کا رخ قوم عاد کی طرف کردیا جائے، چنانچہ سات راتیں اور آٹھ روز تک قوم عاد پر تند وتیز ہوائیں چلیں، ان ہوائوں نے قوم عاد کے نافرمانوں ، سرکشوں اور باغیوں کو زمین سے اٹھایا، فضائوں میں اڑایا اور انہیں آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرایا ۔ ان کے سر الگ دھڑ الگ ہوگئے، ماتھے پھٹ گئے، بھیجے سر سے اور آنتیں پیٹ سے باہر ، گوشت ہڈیوں سے جدا اور وہ زمین پر ایسے ٹوٹ پر بکھر گئے جیسے کھجور کے تنے زمین پر گرے ہوئے ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت ہودؑ سے ارشاد فرماتا ہے کہ ان کی نعشوں پر کھڑے ہوکر ان سے کہوں کہ طاقت کے غرور کرنے والوں !بتائو تمہاری طاقت کہاں چلی گئی؟ بے شک جس اللہ نے تمہاری جیسی قوم بنائی ہے وہی سب سے زیادہ طاقت ور ہے ۔ طاقت کے نشے میں مست ہونے والوں کے لئے اس عبرت ناک انجام میں بہت بڑا سبق ہے۔ یہ چند مثالیں ہیں وگرنہ عبرت پانے والوں کیلئے ہر سوں نمونے موجود ہیں بس دنیا کے رنگ وبو نے بے شمار لوگوں کو اندھا کردیا ہے، جونہی یہ آنکھ بند ہوگی ساری حقیقت سامنے آجائیگی۔ گذشتہ قوموں کے واقعات کا اسی لئے قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے تا کہ لوگ ان کے انجام سے سبق حاصل کریں اور اللہ سے ڈریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی پائیدار زندگی کا یقین کامل نصیب فرمائے ۔
(رابطہ۔ 6291697668)