بازاروں میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں مسلسل بڑھوتری سے ایسا لگتا ہے کہ ان قیمتوں پر قابو پانے کے لئے سرکاری انتظامیہ تواتر کے ساتھ غیرسنجیدگی کا مظاہر ہ کررہی ہے اور اشیائے ضروریہ خصوصاً روز مرہ استعمال کی جانے والی کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے والے متعلقہ سرکاری محکمہ کے افسر اور فیلڈ اہلکاران اپنی ذمہ داروں سے بدستورغفلت بھرت رہے ہیں۔شائد وہ اس بات سے ناواقف ہیں کہ کشمیری عوام کو اس وقت جس بےلگام کمر توڑ مہنگائی کا سامنا ہے، اُس سے اُن کی زندگی انتہائی اجیرن بن گئی ہےاور اگر کسی متعلقہ افسر یا اہلکار کو اس بات کا علم بھی ہو، تو وہ بھی خاموش تماشائی بن بیٹھا ہے ،جس کے بارے میں یہی خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے نجی مفادات کی خاطر کررہے ہیں۔جس کے نتیجے میں ناجائز منافع خور وں کے وارے نیارے ہورہےہیں۔ظاہر ہے کہ ابھی تک موجودہ سرکاری انتظامیہ کی جانب سے زمینی سطح پر ایسی کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی ہے ،جس سے عوام کو کسی قسم کوئی راحت ملی ہو،اور اُن میں پایا جانے والاخدشہ دور ہوا ہو۔حکومت کی خاموشی اور متعلقہ محکمہ کی غفلت کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں کے ہربازار میں ہر کسی چیز کی قیمت میں بلا کسی خوف و کھٹکے تاجر ، دکاندار، چھاپڑی فروش ا وریڑے والے کا ہی راج چل رہا ہے اور وہ ہر چیز کے لئے من چاہی قیمت وصول کررہاہے ۔یہ بھی سچ کہ ہمارے معاشرے میں ایمانداری ،حق پرستی اور انصاف نام کی کوئی چیز اب باقی ہی نہیں رہی ہےاور یہ چیزیں محض کہنے کے لئے رہ گئی ہیں،جس کے نتیجہ میں عام لوگوں کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کو ٹھگنے و لوٹنے اور اُس کا چمڑا اُکھیڑنے پر تُلا ہوا ہےاور کھلم کھلا اپنے غلط طرز ِعمل کا مظاہرہ کرنے میں کسی قسم کی کوئی ہچکچاہٹ یا شرم محسوس نہیں کرتا ہےبلکہ فخر کے ساتھ انسانی ،اخلاقی و ذہنی پستی کا مظاہرہ کررہاہے ۔کشمیری معاشرے کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ جیسےہماری زندگی اور اعمال روحانیت اور مقصدیت سے خالی ہوگئی ہے،ہماری اکثریت بے عملی ،بد اعمالی،بے راہ روی اور اباحیت کا شکار ہوچکی ہے اور جو لوگ اسلامی اعمال کے پابند ہیں ،اُن کے اعمال مقصد اور روح سے خالی ہوکر رسم بن کر رہ گئے ہیں ۔جس کے نتیجہ میں جہاں ارباب و اقتدار اور کاروباری لوگ ایمان ،دیانت اور فرض جیسی باتوں کو خاطر میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، وہیں سرکاری و غیر سرکاری ملازم طبقہ ،تاجر پیشہ افراد ،دکاندار ،مزدور ،کاشت کار اور دیگر مختلف پیشوں سے وابستہ تقریباً سبھی لوگ اپنے مذہبی اورمعاشرتی اقدار سے بے نیاز ہوکر صرف دنیاوی فوائد کو سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ جموں و کشمیرمیں مہنگائی کو قابو میںلانے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہورہی ہے۔اگرچہ جموں و کشمیر کےلوگوں کی ترقی ،خوشحالی اور بہتری اور سہولت کی فراہمی کے دعوے ہر وقت کئے جارہے ہیںلیکن یہ سبھی دعوے بے معنی ہوتے ہیں۔ وادیٔ کشمیر کے عام لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور درپیش مسائل کے حل کے لئے جس طرح کی صورت حال کا سامنا ماضی میں کرنا پڑتا تھا،آج بیشتر معاملات میںعوام کو ماضی سے بھی زیادہ مشکلات ومصائب جھیلنا پڑتے ہیں۔ ناجائز منافع خور مافیا ایک طاقتور شکل اختیار کرچکا ہے،جس کی زد میں بہت ساری ادویات بھی آچکی ہیں،جبکہ ڈپلی کیٹ ادویات کی اچھے داموں میں فروخت بھی کھلے عام ہورہی ہےاورغریب عوام کو ان عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔المختصر وادیٔ کشمیر میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میںدن بہ دن اضافے سے لوگوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر بنتی جارہی ہے ۔اشیائے ضروریہ اور روزمرہ کے استعمال کی اشیاء عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ معاشی بحران اور انحطاط کی وجہ سے پہلے ہی بے شمار لوگ روز گار سے محروم ہیں جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں ،کارخانوں اور اداروں میںکام کرنے والے لوگوں کو بھی مناسب تنخواہیں اور اُجرتیں نہیں مل رہی ہیں،جس سے عام آدمی کی آمدنی متاثرہوچکی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری انتظامیہ فوری طور پر ناجائز منافع خوری پر قدغن لگانے کے لئے اقدامات کریں۔