نئے سال کا کلینڈر | عدل وانصاف کا پیکر ہو

 صحت اور فراغ ( وقت) خدا کی ہزارہانعمتوں میں سے دو بڑی نعمتیں ہیں ،سال، مہینہ اور دن ورات اسی وقت کے مجموعے کاالگ الگ نام ہے۔وقت کی قدر کرکے ادنیٰ آدمی اورایک محنتی طالب علم وقت کا بہت بڑاانسان اور انقلاب آمیز شخصیت بھی بن سکتاہے ورنہ اسکے ضیاع اور اپنے بُرے اعمال وکرتوت کی وجہ سے دنیا وآخرت میں ذلیل ورُسوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ دنیامیں بدنامی کا ٹیکہ اورقیامت کے دن مجرموں کی صف میں کھڑا بھی ہوسکتاہے۔ سورہ یٰسین میں اللہ کا کھلا فرمان ہے :کہ کل قیامت کے دن اچھے مسلمانوں ، دنیا کے مجرمین اور شرپسندوں کے درمیان نمایاںفرق کردیا جائے گا، آدم کی اولاد سے شیطانوں کی عبادت نہ کرنے کا اللہ نے معاہدہ لیاہے اور بتایا ہے کہ ابلیس تمہارا کھلا دشمن ہے، صرف اللہ کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔ البتہ شیطان نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کررکھاہے ،پھر بھی عقلمندوں کو قرآن کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔آج ہم شیطانوں کی لپیٹ میں رہ کر بھی روشنی اورہدایت کی طرف جانے کے بجائے اندھیروں میں بھٹکتے جارہے ہیں،حتیٰ کہ مغربی تہذیب وتمدن کی ظاہری چمک دمک اور ٹیپ ٹاپ کے چکر میں پھنس کر نئے سال، مہینہ اوراسکے ایام کا اسلامی احتساب کرنے کے بجائے ہم سال نو کے غیر اسلامی استقبال میں اس طرح منہمک ہوجاتے ہیں کہ غلط رسومات اور اچھی چیزوں میں امتیاز بھی نہیں رہ پاتا ۔ اسی طرح ہم مرورایام اور مسائل وفتنوں کے گرداب میں رہنے کے باوجودبھی اپنی حقیقی ذمہ داریوں اور انکے تقاضوں سے غافل اور دور ہوتے جارہے ہیںاور بیکار وفالتو چیزوں میں اپنا قیمتی وقت ،صحت اور انرجی صرف کرکے دنیا کے جھمیلوں اور مشغلوں میں ہی اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔اپنی اسی بے راہ روی اور کارستانی کے نتیجے ہم دوسروں کو بھی دین سے قربت کے بجائے دوری ومتنفر کا سبب بن رہے ہیں،اس طرح ہم دین کی سچی تصویر پیش کرنے سے بھی قاصر ہوگئے ہیں۔ درحقیقت آخرت کے دن میں اسی قیمتی نعمت ودولت کاہم سب سے حساب و کتاب ہوگا، کہاں سے ہم نے دولت کمائی اور کہاں پر ہم نے اسے خرچ کیا، اس دن ہرچیز کاہم سے حساب وکتاب ہوگا۔اگرہم نے دنیاکی زندگی اور ایام کوخدا کی بڑی نعمت سمجھ کرایمان ویقین ،عدل وانصاف،خیر وبھلائی، عبادت وریاضت اوراخوت ومودت کیساتھ گزاراہوگا تو ہم وہاں بھی سرخرو ہونگے اور یہاں میں بھی عزت وبلندی سے سرفراز ہونگے، اسی لئے دنیاہمارا اصلی گھر نہیں بلکہ ایک امتحان گاہ یا قید خانہ کی مانند ہے اور آخرت ہماری ہمیشہ ہمیش کی زندگی ہے۔امتحان گاہ اور قیدخانے کے کچھ ضابطے ہوتے ہیں ،جنکے اصول وضوابط کی ہمیں وہاں پابندی کرنی پڑتی ہے، اسی طرح اسلام کے مطابق جینے اوررہنے کے بھی کچھ آداب و اصول ہیں، جنکے مطابق ہر مسلمان مردوعورت اور نوجوان بچے اور بچیوں کا چلنا ہر سال ،ہرمہینہ بلکہ ہر دن ضروری اورلازمی ہے، یہی وقت کااہم تقاضا بھی ہے۔ 
مگر افسوس!کتنے سال آتے ہیں گزر جاتے ہیں۔اب تو ہمارے اوقات سے بھی برکت اٹھا لی گئی ہے اور ہر طرح کی محرومی کاہمیں شکوہ ہے،مگر اعمال وکردار کی اصلاح کی فکر ندارد!ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ایام ، مہینے اور سال لمحوں اور منٹوںمیںگزر جارہے ہیں، وقت سے بھی برکت اٹھا لی گئی ہے،پھر بھی ہمیں نعمت کی قدر نہیں۔سال نوکی آمد اور خوشیوں کی محفلیں بڑے ذوق وشوق سے منعقد توکرتے ہیں مگراپنی ہی بے ڈھنگی والی زندگی پر ہماری نگاہ نہیں پڑتی، اصلاح کی توفیق حاصل نہیں ہوپاتی ،وہ سال ہی سال کیا،جس میں انسان کو سچی ہدایت نصیب نہیں۔ بیس کی ٹیس ،اکیس کی تکلیف اوراسکے تلخ تجربات و مشاہدات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ سال گزرنے کوتو گزر گیا، مگر اسکی تلخ یادیں ہمارے دلوں میں باقی رہ گئیںاور مظلوموں کا زخم مندمل ہونے کے بجائے تروتازہ ہی رہ گیا،اسکی ٹیس مہینہ اور سال کے بدلنے کے باوجودبھی بدستورقائم ہے۔وہ سال ہی سال کیا، جس کے ۳۶۵دنوں میں سے کسی گھڑی بھی مظلوموں کے دردکا احساس نہیں ہوا، اسکی ٹیس سے ہم مضطرب وبے قرارنہیں ہوئے،دراصل بدن کاظاہری زخم چند دنوں میں مندمل ہوجاتا ہے اور تھوڑے بہت علاج و معالجے کے بعد انسان مکمل شفا یاب ہوجاتا ہے، مگر دل اورزبان کے زخم،بے جا ظلم و زیادتی ، ناحق قتل وخون کا بھیانک مناظر، نفرت کا زہر، عداوت کی فضا اور متعدد سیاسی گھاؤسال کے گزرنے اور مہینے کے بدلنے کے باوجودبھی تروتازہ اورہرے بھرے رہتے ہیں۔ وہ شیطان صفت انسان ہی ہوسکتا ہے، جو دوسروں کے درد کو اپنا درد محسوس نہ کرے، اس کا فاعل انسانیت کا کھلادشمن ہی ہوسکتا ہے، جواپنے مفادات کی خاطر جھوٹ بات پھیلائے اور اپنی حرص وہوس کو تسلی دینے کیلئے بے گناہوں کا خون بہائے۔ وہ کرسی کا بھوکا ہی کہلاسکتا ہے،جو دوغلی زبان اور دوہرے معیارسے قوم وملک کودھوکے میں رکھے اور نئے سال کی آمد کی خوشیاں کے نام پر درد کا صحیح مداواپیش کرنے کے بجائے بہکی بہکی باتوں میں لوگوں کواُلجھائے رکھے، اسکے فریب میں حقیقی دردکاتذکرمجہول ہوجائے ،جواپنے بھائی کے درد کی کوئی پرواہ نہ کرے،نئے سال کے تحفوں کے نام پر قوموں کو طرح طرح سے پھسلائے، لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے، اپنی باتوں سے اپنی ظاہری شکل دکھائے اور پس پردہ اپنے چھپے چہروں سے ملک اور ملکی عوام پر جبر استبداد کاسیاہ کارنامہ انجام دے۔ جیسا کہ ہم نے اور آپ نے سن اکیس کے آخری مہینہ دسمبرمیں ھری دواراورچھتیس گڑھ کے دھرم سنسد وںسے سادھوسنتوں کی زبان سے مسلمانوں کیخلاف بلکہ قتل عام کے سلسلے میں تعجب انگیردھمکیاں سنیں!کیاان باتوں سے کوئی عقلمند انسان ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش سمجھے گا یا وطن عزیز سے محبت و اخوت اور جمہوریت کی علامت؟ کیا ان سے ہمارے وطن عزیزاور اسکے آئین کی کھلے عام توہین نہیں ہورہی ہے؟ کیاان باتوں سے صد سالہ گنگا جمنی تہذیب کو داغدارکرنے کی ناپاک کوشش نہیںہورہی ہے؟ایسے لوگوںپر آخر قانونی شکنجہ کب کسا جائے گا؟ ایسے منافرتی لوگوںسے ہمارا ملک کس سال اور کس مہینہ میں پاک وصاف ہوگا؟ بیس بھی اپنی ٹیس کے ساتھ گزر گیا، اکیس بھی اپنی بے پناہ تکلیف ودرد کیساتھ روانہ ہو گیا،مگر تکلیف ودردمیں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اب بائیس نے بھی قدم ڈالا ہے ۔ مظالم وجرائم سے توبہ واستغفار کا سال آخر کون سا سال ہوگا؟ ہم ملک کے ارباب اقتدار سے نئے سال کی آمد کے موقعے سے یہی جانناچاہتے ہیں؟ کہ ملک وقوم کو ناپاک پروپیگنڈے سے نجات کاتحفہ کب ملے گا؟کب پیاسی انسانیت کی دادرسی کی جائے گی؟ کس سال رواداری اور عدم تشددکے معاہدے کانفاذ عمل میں آئے گا؟ جونفرت و عداوت اورجبر وزیادتی کی پلاننگ سے پاک ہوگا؟ ابلیس کی ناپاک حرکتوں پر کس سن سخت سزائیں ملیں گی؟تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں اندھیر نگری چوپٹ راج کاسورج ڈوب گیا وہاں وہاںمنافرت کے شرارے بھی بُجھ گئےاور عدل و نصاف کا دور شروع ہوا۔خدا ہر چیز پر قادر ہے۔وہی عزت بھی بخشتاہے اور وہی ذلت بھی دیتا ہے۔
آج بھی سال نو کے موقعے پر بھی قوم وملک کو اپریل فول والا وہ تحفہ پیش کیا جارہا ہے،جوجھوٹ ،مذاق اور فریب کا پلندہ ہوتا ہے۔ یہود ونصاریٰ کو انہیں حرکتوں کیوجہ سے قیامت تک کے لئے گمراہ کاٹھپہ لگ گیا ہے اور ہمارے ملک میں منافر طاقتوں کی بھی اُن سے مشابہت ہورہی ہے۔آخر کب تک وہ اپنامنافرانہ چہرہ چھپاتے پھریں گے؟کیونکہ سچے اور ہمدرد انساں و حکمراں کی پہچان انکی زبان و فکر سے ہوتی ہے ،انکی زبان سے نکلتی ہوئی میٹھی بول اور دل سے ابھرتے ہوئے اچھے جذبات و احساسات سے اچھے انسان کی شناخت ہوتی ہے،زمانۂ جاہلیت کے کسی مشہور شاعر کا بہترین قول ہےکہ انسانی شخصیت میں آدھی چیز اسکی زبان ہوتی ہے اور آدھا اسکا دل اور ضمیرہوتا ہے۔ جس سے وہ نفرت و عداوت کا ہتھیاربنا کر اور اپنی زبان سے گندی باتوں کا اظہار کرکے ملک کے پرامن ماحول کو خراب بھی کرسکتا ہے۔جیسا کہ اسوقت ہمارے ملک میں دکھائی دے رہا ہےکہ اُسی زبان سے انسان محبت و الفت، یکجہتی ویگانگت اور اخوت و مودت کی باتیں عام کی جارہی ہیں۔ ایکتا اور اتحادکی باتیں عام کرکے قوم وملک کو سوپر پاور بنا سکتا ہے۔جوچیزیں ہمارے ملک سے مفقود ومجہول ہوتی جارہی ہیں،جو بہت افسوس اور فکر کی بات ہے۔ سال نو کے موقعے سے اس سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہوسکتی کہ ہزار برس سے بھی زائد عرصوں سے چلتے آرہے ہندو اور مسلمان ایکتا کوپھر سے زندہ کیاجائے، انکے درمیان پھیلی زہریلی فکر کے نفرتی ماحول کوسازگار بنایا جائے تاکہ ابلیس اپنی دم دبا کربھاگ جائے! مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پیدا کی جارہی ہے۔ اگر حکومت، انتظامیہ اور میڈیا جو کہ ملک کے اہم ستون ہیں،اپنی زبان وحرکت اور قول وفعل سے اس ملک کی پرامن فضا اور صدیوں سے قائم بھائی چارگی کو زہر آلود بنانے پرکڑی سزا عائد کردیں تو کس کی مجال ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف زہر افشانی کرے یا انکاقتل وخون کرنے یا افتراق و بگاڑ کی بولیاں بول سکے؟دھرم سنسدوں میں سادھوں سنتوں کی اتنی ہمت کس نے پیدا کی،جن کی گرفتاری اور رہائی بھی ایک گمراہ کن سیاست بن گئی ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات اور مشاہدات کیا ہمارے ملک کے انتہائی اہم اداروں کو نظر نہیں آرہے ہیں؟ کیا معصوموں اور مظلوموں کے خون کے قطرے انہیں نہیں تڑپا رہے ہیں؟ مگر افسوس! کہ ملک کو جس تعمیر وترقی کی شدیدضرورت ہے ،اس سے منہ موڑ کرہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اور تخریبی افکار و خیالات کا بیج بویاجارہا ہے،اپنے منہ ، زبان اور دل سے ایک مخصوص طبقے کے خلاف کھلے عام کھلواڑ کیاجارہا ہے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا ہر جگہ ستیاناس کیا جارہا ہے۔
افسوس کہ یہ دور جس سے ہم اور آپ گزر رہے ہیں اور بالخصوص 2021 کا سال جس کا ابھی ابھی اختتام ہوا ہے، مگر اس سے بے شمار تلخ تجربات اور تباہ کن مشاہدات جڑگئے ہیں، جن کے بارے میں سوچ کر اور سن کر زندہ دل کانپ جاتا ہے ا ورانسانی ضمیر تڑپ اٹھتا ہے ، بھلے انسانوں کی زبان پکار اٹھتی ہے کہ ہمارے ملک میںآخر کن کی حکومت ہے،ملک وقوم کے دوستوں کی یاقوم و ملک کے دشمنوں کی؟! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہم مردہ ضمیر انسانوں اور نااہل حکمرانوں کی بستی میں مقیم ہوگئے ہیں، جہاں نہ انسانیت کی قدر ہے اور نہ اسکی خیرخواہی کی فکر۔ بس نئے سال پر نعرہ لگانے والے بن گئے ہیں!ہم اپنی تمام تر ترقیات اور ایجادات کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بھی دل و زبان اور انسانیت کی خیرخواہی و بھلائی والی زبانوں اور انسانی اوصاف و صفات والی زندگی سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ جہاںانسانوں کی جان،مال اور عزت بھی محفوظ نہیں ہے، جہاںانسانوں سے بڑھ کر جانوروں کو فضیلت دی جارہی ہے۔ زمانہ جاہلیت اور ہمارے ڈیجیٹلائٹ دور کی جہالت میں کیا فرق باقی بچ گیاہے؟ بلکہ ہم تو 2021 میں زبان و دل کے اعتبار سے ان جانوروں کے اوصاف وخصائل سے بھی بدتر ہوگئے ہیں، جوا پنے مالک کی وفاداری میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں،اپنے بچوں پرسہوا پیر رکھنے بھی احتیاط برتتے ہیں،مگر یہاں تو گائے کے گوشت کے بہانے اور شک وشبہ کی بنیاد پر کتنے بے قصورلوگوں کو شر پسند عناصر نے جان سے ہی مار دیاہے۔ ماب لنچنگ اورہجومی حملوں میں کتنے مسلمانوں کو ہلاک کردیا گیاہے۔ 
یوپی کی سرکار نے تو حد ہی کردی کہ اسکے دور اقتدار میں کتنی بے قصور جانوں کا نقصان ہوا، حتیٰ کہ معقول کھانے پینے کی اشیاء پر بھی پاپندیاں عائد کردی گئیں۔لوگ چاہ کر بھی اپنی پسند کی غذا نہیں کھاسکتے، لو جہاد،طلاق، شادی کی عمراور سی اے اے وغیرہ پر مسلم مخالف متنازعہ قانون بنا لیا گیا، جسکی وجہ سے عوام و خواص تا حال اپنی پریشانی وبے چینی اور درد وکرب کا اظہار کر رہے ہیں، اکیس کی ٹیس ،اسکی متعدد تباہ کاریاں وکارستانیاں اور سارے زخم ابھی بھی ہمارے دلوں میں تازہ اور ہرے ہیں۔ملک کی معیشت اور تعلیم و تربیت کے نظام کو کس غار میں دھکیل دیا گیا ہے، جسکی تلافی فی الحال ناممکن اور محال بن گئی ہے۔ کاش 2022 کا نیا سال اور اسکا سورج ہماری سوچ و فکر اور زبان و ادب میں نمایاں تبدیلی کا سال ثابت ہو، زخموں پر مرہم پٹیوں، امراض واسقام سے ہماری مکمل نجات کے دن ثابت ہوں۔ کاش! نئے سال کی آمد کے موقع پر حکومت اپنی پالیسیوں کو مظالم سے پاک، فتنوں سے صاف دور تیار کرکے ایک ایسا نظام نافذ کرے جو ہم سبھوںبالخصوص ہندومسلم کیلئے امن وسلامتی کا داعی، اتحاد واتفاق کا پیکر، یکجہتی و یگانگت کاجامع ،عدل وانصاف اور مودت و اخوت کا پیکر ہو،ہم سب ایک دوسرے کو محبت کی نگاہوں سے دیکھنے والے اور دعائیں دینے والے بن جائیں۔نئے سال کا سفر پوری انسانیت کیلئے نئی صبح ، نئی امنگوں اورنئے حوصلوں کا حامل ہو،اور ہم ایک دوسرے کو استقبال کرنے والے بنیںاور نئی زندگی کی شروعات کرنے والے بن جائیں۔
(عربی لیکچرار،مولانا آزاد اردو یونیورسٹی ،
حیدر آباد،موبائل نمبر۔8801589585)