پیلٹ اور سٹن گولوں کے بعد اب کشمیر میں مظاہرین کو قابو کرنے کےلئے بدبو پیدا کرنے والے کیپشولوں کے استعمال کرنے کے مشورے دیئے جارہے ہیں۔ حال ہی میں ایک میڈیا رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ شہرقنوج میں عطریات اور ذائیقے کو فروغ دینے والے اجزاء تیار کرنے والے ایک مرکز کے سائنس دانوں نے ایسے کیپشول تیار کئے ہیں جن کے پھٹنے سے ناقابل برداشت بدبو پید اہو جاتی ہے۔ انکا دعویٰ ہے کہ اس سے برآمد ہونے والی بدبو انسانی صحت کے لئے ضرر رساں نہیں ہوگی۔ ان اطلاعات کے مطابق اس کپیشول ، جسے ہجوم کو قابو کرنے والے بے ضرر ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کا نمونہ درمیانی اور چھوٹی درجہ کی صنعتوں کے وزیر کو پیش کیا گیا ہے۔ اگر چہ سرکاری حلقوں کی طرف سے اس حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے لیکن تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بذات خود یہ خبر ہی انتہائی توجہ کی طالب ہے، کیونکہ اس سے ایک اشارہ یہ ضرور مل رہا ہے کہ کشمیر کے دگر گوں حالات کے ساتھ صنعتی ادارںکے مفادات پید اہوتے جارہے ہیں، کیونکہ چند ہی برس قبل جب وادی میں پیلٹ کا استعمال شروع کیا گیا تھا تو کچھ ایسے ہی دلائل دیئے گئے تھے کہ یہ غیر مہلک ہیں اور مظاہرین کو منتشر کرنے کا کم نقصان دہ طریقہ ہوگا۔ مگر حالات نے ثابت کیا ہے کہ پیلٹ گنوں کے استعمال نے وادی کے اندر کتنے لوگوں کی آنکھوں کے روشن چراغ بھجا کر رکھ دیئے ہیں اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ ہمیشہ کےلئے معذور ومحتاج ہو کر رہ گئی ہے۔ خوفناک ترین بات یہ ہے کہ جنگلی حیوانوں کا شکار کرنے میں استعمال کئے جانے والے چھروں سے جتنے لوگوں کی بینائی متاثر ہوئی ہے اُن میں 42فیصد متاثرین کی تعدادکم عمر وں کی ہے اور ان میں سے بیشتر اقتصادی طور پر کمزور اور بدحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم نے535متاثرین کے حالات کا مشاہدہ و تجزیہ کیا ہے جن میں229متاثرین کی عمر 20برس سے بھی کم پائی گئی ہے ۔ا س طرح یہ اندازہ لگانا ذرہ بھر بھی مشکل نہیں کہ پیلٹ کے استعمال سے کس عنوان کی تباہی مچ گئی ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیلٹ کے استعمال پر جہاں ریاست کے اندر زبردست احتجاج ہو رہا ہے وہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی وقتاً فووقتاً اسکے خلاف زبردست ردعمل سامنے آیا ہے یہ الگ بات ہے کہ امن و قانون کے ذمہ دار اداروں پر اسکا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوا ہے، کیونکہ آج بھی اس انسانیت کش ہتھیار کا استعمال جاری ہے اور چند روز قبل ہی اسکا شکا رہوئے کئی لوگ ، جس میں مرد و زن کا کوئی امتیاز نہیں، زخمی ہو کر سرینگر کے ہسپتالوں میں پہنچ گئے ہیں۔2016کی ایجی ٹیشن کے دوران پیلٹ کے استعمال پر بین الاقوامی سطح پر زبردست شور مچنے کے بعد ٹیر گیس سے مماثل سٹن گرینیڈ متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا جس کی خاصیت یہ ہے کہ اُس سے خارج ہونے والے دھویں سے انسان دم بخود اور ساکت ہوکر رہ جاتا ہے۔ چونکہ اس وقت ساری دنیا پر کارپوریٹ سیکٹر کا راج ہے اور بیشتر ملکی حکو متیںکومتیں انکے معیشی مفادات اور اثر و رسوخ کی عملی علامتیں بن کر رہ گئی ہیں، ایسے حالات میں کشمیر کے اند ر اندر نئے نئے ہتھیاروں اور آلات کے استعمال سے اس خطہ کے ایک تجربہ گاہ بننے کے قوی امکانات پیدا ہو رہے ہیں۔ اس تناظر میں بدبو والے ہتھیاروں سے متعلق یہ خبر اس خطرے کا اشارہ ہے کہ کیا کشمیر کے اندر جاری حالات کے ساتھ صنعتوں کے مفادات وابستہ ہو رہےیا کیا اسکے امکانات کی تلاش کی جاری ہے۔ تجزیہ نگاروں کو اس صورتحال کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیکر دیانت سے اپنی رائے سامنے لانی چاہئے اور حکمرانوں کو بھی اس معاملے کا نیک نیتی سے جائزہ لے کر ایسے امکانات کی راہیں مسدود کرنے کےلئے پُر خلوص طریقۂ کار اختیار کرنا چاہئے کیونکہ بہر حال وہ عام لوگوں کے ووٹ سے ہی اختیار و اقتدار کے مرتبے پر فائز ہیں اور عام لوگوں کی پریشانیوں اور تشویش کو زیر نظر رکھنا انکی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔
اسکالر شپ کے نام پر