ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی
اردو زبان ہندوستان کی زبان ہے، یہ زبان یہیں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی اور پروان چڑھی، اس طرح یہ مشترکہ تہذیب وثقافت کی علمبر دار ہے۔ یہ ایک شیریں زبان ہے، اس کو اس ملک کے بسنے والے ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سبھی بولتے ہیں۔ البتہ یہ مسلم اقلیت کی مادری زبان ہے، یہ گنگا جمنی تہذیب وثقافت کی امین ہے، اس لئے اس زبان کا رشتہ ملک کے تمام بسنے والے لوگوں سے ہے۔
اردو ہندوستان کی زبان ہے، اردو زبان کے فروغ کے بعد عربی وفارسی کے ذخیرے اردو زبان میں منتقل ہوئے، یہی وجہ ہے کہ عربی زبان کے بعد سب سے زیادہ علمی ذخیرہ اردو زبان میں ہے۔ موجودہ وقت اردو ہماری تہذیب وثقافت کی شناخت ہے۔ اسلامی علوم وفنون کا سب سے بڑا ذخیرہ اردو زبان میں ہے۔ قرآن کریم کی تفاسیر اور احادیث کی شروحات اور دیگر مذہبی علوم و فنون کا بڑا سرمایہ اردو زبان میں دستیاب ہے۔اس لئے اردو کا تحفظ، اس کی بقاء وارتقاء ہم پر لازم ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم اس کے تحفظ اور ترویج واشاعت سے بے توجہی برت رہے ہیں، جس کی وجہ سے اردو کے تحفظ اور ترویج واشاعت میں دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ جہاں تک اردو کے تحفظ ، اس کی بقاء اور ترقی کی ذمہ داری کی بات ہے تو اس کی ذمہ داری عوام وخواص پر بھی ہے اور ملک کی حکومت پر بھی، یہ تجربہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں حکومت کا عمل دخل کا اثر دیکھنے میں آتا ہے، تو اس کی وجہ سے کام کو تحفظ فرام ہوتا ہے، نیز ترقی کے مواقع بھی حاصل ہوتے ہیں۔ زبان وادب کی سرپرستی حکومت کی جانب سے ہوتو زبان کے پھلنے پھولنے اور ترقی کے زیادہ مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ اردو ہندوستان کی زبان ہے، اس کو ہندوستان کے بہت سے صوبوں میں سرکاری
زبان کا درجہ بھی حاصل ہے، ویسے بھی اردو ملک میں بسنے والے ایک بڑے طبقہ کی مادری زبان ہے، یہ ملک کی شیریں زبان ہے،اس نے بین الاقوامی حیثیت اختیار کرکے ملک کے نام کو روشن کیا ہے، اس لئے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اردو زبان کی سرپرستی کرے،تاکہ اس کو تحفظ کے ساتھ ترقی کے مواقع حاصل ہوں۔ اسی طرح حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ پرائمری اسکول سے یونیورسٹی سطح تک اردو کو نصاب میں لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کرکے اردو کی تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔ اردو کی ترقی اور اس کے عملی نفاذ کے لیے اردو نفاذ کمیشن قائم کیا جائے۔ سرکاری دفاتر میں محکموں اور افسروں کے نام کی تختیاں اردو میں لگانے کو لازم کیاجائے۔ سرکاری تقریبات کے بینر اردو میں بھی جاری کئے جائیں اور سرکاری منصوبوں سے عوام کو باخبر کرنے کے لیے ہورڈنگ اردو میں بھی آویزاں کئے جائیں گے۔ ضلع اور اسٹیٹ گزٹ اردو میں بھی شائع کئے جائیں۔ سرکاری نوٹیفکیشن ،سرکلراور حکم نامے اردو میں بھی جاری کئے جائیں۔
کسی بھی زبان کے تحفظ اور ترویج واشاعت میں عوام کا اہم کردار ہوتا ہے، بالخصوص اس طبقہ کے لوگوں کو زیادہ اہمیت حاصل ہوتی ہے ،جو اس زبان کو مادری زبان کی حیثیت سے اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح اردو زبان کے تئیں مسلم عوام و خواص کی ذمہ داری زیادہ بڑھ جاتی ہے، چونکہ یہ ان کی مادری زبان ہے، اس لئے مسلم عوام وخواص کی ذمہ داری ہے کہ اردو کے فروغ کے لئے اپنا کردار پیش کریں اور اپنے بچوں کو لازمی طور پر اردو پڑھائیں۔ اردو کی تعلیم کے لیے بیداری پیدا کی جائے، اپنے گھروں میں اردو پڑھنے، لکھنے کو رواج دیا جائے اور اردو زبان کی تعلیم کو عام کرنے پر محنت کی جائے۔ اپنے بچے اور بچیوں کو اسکول وکالج میں اردو کو لازمی سبجیکٹ کی حیثیت سے رکھنے کی تاکید کریں۔ بچوں کو بنیادی تعلیم میں اردو کو فوقیت دیں۔ اسکول وکالج میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا وطالبات کے لیے صباحی ومسائی مکاتب ومراکز کا انتظام کیا جائے۔ اردو اخبار اور رسالہ ضرور خرید کر پڑھیں۔ اپنی دکان کے سائن بورڈ اردو میں لگائیں اور ناموں اورمکانوں کی تختیوں پر اردو کا استعمال کریں۔ شادیات اور تقریبات کے دعوت نامے اردو میں بھی شائع کریں۔ اردو کی کتابیں خرید کر پڑھیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔ سرکاری سطح پر اردو کے عملی نفاذ پر نظر رکھیں۔ اردو کے ساتھ جہاں ناانصافی نظر آئے تو جمہوری طریقہ سے آواز بلند کریں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو کے درس وتدریس پر نظر رکھیں۔ اردو کو اس کے رسم الخط کے ساتھ لکھیں۔ واٹس ایپ، فیس بک ودیگر سوشل میڈیا پر اردو رسم الخط کا استعمال کریں۔ اردو کے عملی نفاذ کے لیے پریشر گروپ بنایا جائے۔
نئی نسل میں اردو سے بے توجہی بڑھ رہی ہے، اس کو دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں اس کا احساس پیدا کیا جائے کہ وہ اردو کو مادری زبان سمجھیں اور وہ مادری زبان کی اہمیت کو پیش نظر رکھیں۔ اردو کے مادری زبان ہونے کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ ماں کے جیسا سلوک کیا جائے، اس لئے اس کو ہم سب خود بھی پڑھیں ،لکھیں اور اس کے تحفظ وترقی کے لئے کوشش کریں، جہاں کہیں حق تلفی اور ناانصافی ہو،تو اس کے خلاف آواز بلند کریں، بہت سے دانشوران اردو زبان اور ادب کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کررہے ہیں، یہ افسوس کی بات ہے، کیونکہ ادب زبان ہی سے وجود میں آتا ہے، اگر زبان کا تحفظ نہ ہو اور وہ زوال پذیر ہوجائے تو ادب کی تخلیق رک جائے گی اور ادب کے ادارے بند ہوجائیں گے، اس لئے ادب کی ترقی اور ادبی اداروں کے تحفظ کے لئے اردو کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، اس کو کسی خانہ میں تقسیم نہ کیا جائے ، اس لئے اردو خواہ زبان ہو یا ادب دونوں کا تحفظ ہم سب اپنا فریضہ سمجھیں ، اللہ تعالیٰ ہم سبھی کو اردو کے تحفظ کی توفیق عطا فرمائے۔
رابطہ۔9835059987
ای میل۔[email protected]