غریبی کی سطح سے نیچے گزر بسر کرنے والے لوگ سرکاری طور پردئے جانے والے راشن سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے تھے۔ تین طرح کی درجہ بندی کے ساتھ یہ راشن فراہم کیاجاتاتھا۔جن میں انتودیہ ،غریبی سطح سے نیچے گزر بسر کرنے والوں کے لئے خصوصی سکیم بی پی ایل کے علاوہ اے پی ایل، جس میں سرکاری نرخوں کے مطابق راشن جن میں چاول،گیہوں یاآٹا،شکر،تیل وغیرہ فراہم کیا جاتا تھا جو 2014تک لگاتار طے شدہ قاعدہ کے مطابق دیاجاتارہاہے۔ لیکن 2014کے بعد دئے جانے والے راشن میں اتار چڑھاؤ آنا شروع ہوگیا۔2017ء میں ان راشن کارڈوں کو آن لائین کروانے کا کام شروع کیاگیا۔اس وقت کے وزیر امور صارفین نے اس قانون کو سختی سے نافذ کرنے اور اس کے نفاذ پر اہم پیش رفت کے لئے اقدام اٹھائے۔ جس کے بعد نفری کے مطابق راشن فراہم کیا جانے لگا۔ انتودیہ کو 20کلو چاول اور 15کلو آٹا یاگیہوں جبکہ بی پی ایل کو ایک نفر پر تین کلو چاول اور دو کلو آٹایا گیہوں یعنی پانچ کلو راشن دیا جانے لگا۔2019تک اس طرح یہ نظام چلا۔جس کے بعد کچھ اور تبدیلی لائی گئی۔
جموں وکشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ اس سکیم سے بجائے فائیدہ کے غریب عوام کو راشن ملناسونے چاندی سے بھی انمول ہوگیاہے۔ ضلع پونچھ سے تیس کلومیٹر دور تحصیل منڈی کے زیر اہتمام پنچائیت چکھڑی بن کے محلہ ناگاناڑی کا مقامی بزرگ محمد دین عمر 65سال آنکھوں کی روشنی سے محروم ہیںجبکہ اس کا ایک بیٹااور بیوی بھی نابینا ہیں۔ آج سے چند سال قبل اس کا راشن کارڈ بی پی ایل سے کاٹ کر اے پی ایل میں کردیاگیاہے۔ کئی بار پنچائیت سے لیکر ADآفس تک ٹھوکریں کھائیں لیکن راشن کارڈ نہ دوبارہ بن پایااور نہ ہی یہ بتایاگیاکہ کس کو اس کا راشن کارڈ بناکردیا گیا ہے۔ جہاں ایسے بزرگ سفید پوش انسان کے ساتھ محکمہ پنچائیت نمائندگان کا یہ رویہ ہووہاں غریب اپنی زندگی کیسے جی سکتاہے؟ اس طرح کے سینکڑوں مصیبت زدہ لوگ ہیں جن کی فریاد بس ارمان بن کر ہی رہ جاتی ہے۔ کوئی سننے والا نہیں ہے۔
غلام محمد بٹ، جن کی عمر 55 سال ہے اور پنچایت ڈنوں گام کا باشندہ ہے ،کہتے ہیںکہ 2016 تک راشن اچھے ڈھنگ سے دیاجاتارہاتھا۔مقررہ مقدار میں مقررہ نرخوں پر راشن مل جاتاتھا۔خواتین بزرگ یا بچے کسی کو بھی راشن مل جاتاتھا۔وہ لیکر چلے جاتے تھے۔ کیوںکہ مرد اکثر محنت مزدوری کی غرض سے بیرون ریاست کام پر ہوتے ہیںلیکن جب سے جموں وکشمیر میں محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کاری کی جانب سے راشن کی فراہمی میں بائیو میٹرک سسٹم شامل کیاگیا۔یہ بجائے شفافیت کے پریشانی کا سبب بن گیاہے۔
سابقہ مخلوط سرکار نے بہت سارے تحائف سے جموں و کشمیر کی عوام کو نوازا ہے ۔انہی قیمتی تحائف میں سے ایک تحفہ راشن کی فراہمی میں بائیو میٹرک سسٹم بھی شامل ہے۔دیہات کے اکثر لوگوں کا تعلق مزدور طبقہ سے ہے، جو مزدوری کی غرض سے دوسری ریاستوں میں چلے جاتے ہیں۔اشیاء خوردنی کا نظام گھر میں عورتوں اور عمر رسیدہ بزرگوں کے ذمہ آجاتا ہے۔بائیو میٹرک کے چلتے عمر رسیدہ بزرگوں اور عورتوں کو کافی پریشانیوں کا سامنا ہے ۔کبھی بائیو میٹرک مشین کی دقت کی وجہ سے اور کبھی انگلیوں کے نشان نہ میچ ہونے کے باعث خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑتا ہے۔
ایک طرف موجودہ سرکار نے راشن کی مقدار کو کم کر دیا ہے۔ اب اگر ایک کنبہ کو 15 کلو راشن ملتا ہے تو اس کے لئے بھی کنبہ کے تقریباً سبھی افراد کو راشن ڈیپو پر حاضر ہونا پڑتا ہے۔کیوں کہ ایک کا اگر فنگر نہیں لگ پاتاہے تو دوسرے کا لگا کر ہی سہی راشن لیناپڑتاہے۔اس کے علاوہ بائیو میٹرک نظام آنے کے ساتھ ہی ساتھ نہ جانے کن وجوہات کی بنا پر راشن کارڈ میں سے اکثر ان افراد کے نام کا اخراج ہواہے جو کہ بی پی ایل زمرے میں آتے ہیں۔جب اس حوالے سے راشن سیلز میں تعینات عبدالرشید بیدار سے بات کی تو ان کا کہناتھاکہ اب جہاں ہم چار یاپانچ دن میں راشن لوگوں کو دیکر فارغ کردیتے تھے ،وہیں راشن آج پندرہ سے پچیس دنوں میں دن رات ایک کرکے مشکل سے دیاجاتاہے اور عوام کی جانب سے جو راشن میں شامل افراد کے نام آدھار لینے کی غرض سے جو کاغذ دئے جاتے ہیں وہ بھی ہم کمپیوٹر عملہ تک پہنچا دیتے ہیںلیکن پھر بھی لنک نہیں ہوپاتاہے ۔اس کے علاوہ کئی لوگوں کے آدھار کارڈ میں نام غلط اندراج ہیں، اس کی وجہ سے بائیومیٹرک میں دقت آرہی ہے۔ راشن کی فراہمی کی یہ خستہ حالت ایک پنچایت یاگائوں کی نہیں ہے بلکہ تمام تر بالائی ودیہی علاقوں میں یہی حالت ہے۔
یہی معاملہ جب تحصیل سپلائی آفیسر منڈی سبھاش سوری سے دریافت کیاگیاتو ان کا کہناتھاکہ راشن کارڈ میںجو بھی تبدیلی معاملہ ہے،یہ 2011میں ہی ہواہے، اس میں محکمہ ذمہ دار نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں’’آدھار کارڈ میں لوگوں کے نام غلط درج ہوتے ہیں۔ لفظی غلطی کی وجہ سے آدھار لنک نہیں ہوپاتا ہے۔ البتہ جو لوگ غلط بی پی ایل میں اندراج ہوے ہیں اس کی لسٹیں سرپنچوں سے کئی بار طلب کی گئی ہیں۔ جن کی فہرستیں ہمارے پاس نہیں پہنچی ہیں۔ بائیو میٹرک کا ہائی کمان کی جانب سے ہر فرد کا فنگر ضروری قرار دیاگیاہے‘‘۔ اس حوالے سے جب مشین آپریٹر سے بات کی گئی تو ان کا کہناتھا کہ ڈیلر ہر ماہ کی 20تاریخ کے بعد راشن کی فراہمی عمل میں لاتے ہیںجس کی وجہ سے مشینوں پر لوڈ آجاتاہے۔ اگر شروع ماہ سے ہی ڈیلر راشن دینا شروع کردیں تو یہ دقت عوام کو درپیش نہیں ہوگی۔
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب ایک غریب کے لئے راشن کی فراہمی آسان بنانے کو لیکر مرکزی حکومت فکر مند ہے۔ پھر یہ مصیبت کیوں؟ غریبوں کے نام کاٹ کرکسی اور کے نام شامل ہونے پر پنچایتوں کے سرپنچ کیوں خاموش ہیں؟ اس حوالے سے خوارک کے ضلع آفیسر ADسے بات کی گئی تو انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا۔لیکن مزید جانکاری کیلئے جب تحصیل سپلائی آفیسر منڈی سے دوبارہ بات کی گئی تو انہوں نے کہاکہ گزشتہ تین برسوں سے جن لوگوں کے راشن کارڈ بی پی ایل سے اے پی ایل ہو چکے ہیں، سرپنچ حضرات سے ان کی فہرست مرتب کرکے جمع کروانے کے لئے کہاگیاہے لیکن اکثر سرپنچوں نے کوئی توجہ نہیں دی ہے،اب محکمہ یہ چاہتاہے کہ ہر ایک مستحق کو اس کا حق ملے اور کوئی بھی محروم نہ رہے لیکن آدھار لنک بہت ضروری ہے جس کے لئے منڈی تحصیل سپلائی آفیسر کے دفتر میں ایک شخص کو تعینات کیاگیاہے، لوگ آئیں اپنے آدھار لنک کروا لیں البتہ لنک مہینہ کے شروع میں کریں گے تو 15 تاریخ کے بعد اس کا فنگر لگ سکے گا۔ انہوں نے آدھار لنک کروانے میں فنگر پرنٹ کو یقینی بنانے میں عوام کا تعاون طلب کیاہے۔
غریب افراد جو بی پی ایل زمرے میں آتے ہیں، ان کا اندراج کیا جائے تاکہ غریب بھی راحت کی سانس لے سکیں۔ساتھ ہی سماج کے ذمہ دار لوگوں اور پڑھے لکھے نوجوانوں سے گزارش ہے کہ غریب اور مظلوم عوام کی آواز بن کر اپنا حق ادا کریں کیوں کہ سیاسی لیڈران اب آئندہ الیکشن میں ہی ہمارے روبرو ہوں گے۔ہمیں اپنے حق کی لڑائی خود لڑنا ہو گی۔سرکار کی جانب سے دیا جانے والا یہ راشن لاکھوں غریبوں کی پیٹ کا گزارابنتاہے لیکن نئی تکنیک نے ان غریبوں کے پیٹ پر لات رکھ دی ہے۔ (چرخہ فیچرس)
رابطہ۔ اڑائی، منڈی پونچھ