طارق شبنم
وادی گلپوش ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے ،یہاں بہت سے شعراء،ادبااور تاریخ دانوں نے اپنی صلاحیتوںکی بنیاد پر علم و ادب کے گلشن کو مہکا کر اپنی خوشبئوں کو بکھیرا ہے اور ایسے نقش چھوڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو بہت دیر تک قائیم رہیں گے ۔علم ادب کے ان ہی روشن چراغوں میں ایک نام ہے عمر مجید کا جنہوں نے ساری عمر اردو زُبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر علم و ادب کی زلفیں سنواریں ہیں۔ مرحوم عمر مجید کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں ان پر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے ۔وہ ایک فن شناس افسانہ نگار ،ڈرامہ نگار،بہترین استاد اوربے با ک صحافی تھے ۔ ان کی علمی و ادبی خدمات کانہ صرف زمانہ معترف ہے بلکہ علمی و ادبی حلقوں میں انہیں کافی عزت و احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ،خاص طور پر بحیثیت افسانہ نگار ان کی ایک خاص پہچان ہے ۔عمر مجید کا اصلی نام عبدلمجید میر تھا لیکن ادبی وعلمی حلقوں میں عمر مجید کے نام مشہور ہیں ۔آپ 1940ء کو سرینگر کے پالہ پورہ سنوار میں پیدا ہوئے ،آپ کے والد جو ایک معروف استاد تھے کا نام غلام قادر میر تھا ۔مرحوم عمر مجید نے سرینگر کے بسکو سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1958ء میں کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی اور پھر بسکو سکول میں ہی بحیثیت استاد فرائیض دینے شروع کئے جہاں وہ کم و بیش چالیس سال تک فرائیض انجام دیتے رہے ۔مرحوم بچپن سے ہی ادب کی طرف مائیل تھے اوران کا پہلا افسانہ زیر عبوان ’’ایک بوڑھا ولر کے کنارے ‘‘روز نامہ آفتاب کے ادبی ایڈیشن میں شاہع ہوا ۔اس افسانہ کے بارے میں عمر مجید لکھتے ہیں ۔
’’مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب میں اپنا افسانہ لے کر آفتاب کے دفتر میں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ داخل ہوا تھا ۔گرمیوں کا زمانہ تھا ،خواجہ صاحب اس زمانے میں پینٹ اور پورے آستین کی قمیض پہنا کرتے تھے ۔آپ نے میری سلام کا جواب نہایت خلوص کے ساتھ دیا تھا اور شاید عادت کے مطابق مجھے اوپر سے نیچے تک دیکھا تھا ۔بغیر کچھ پوچھے یا کہے آپ نے میرا افسانہ لے لیا تھا اور ایک ہی نشت میں پڑھا تھا ۔میں خاموش بت بنا آپ کو دیکھ رہا تھا ’’ٹھیک ہیـــ! ‘‘ بس آپ نے دو لفظ کہے تھے اور میں کسی وحشت زدہ جانور کی طرح دفتر سے بھاگ نکلا تھا ۔اور پھر تیسرے یا چھوتھے روز میرا پہلا افسانہ ’’ایک بوڑھا ولر کے کنارے ‘‘آفتاب کے زریں اوراق کا زینت بنا تھا ‘‘۔ (عمر مجید کے بہترین افسانے ،مرتب سلیم سالک ص20)
راقم الحروف نے یہ بھی سنا ہے کہ چند روز بعد یہ افسانہ ہندوستان کے کئی معتبراخبارات نے آفتاب سے کاپی کرکے شایع کیا جسے عمر مجید کی کافی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے بڑی دلچسپی سے افسانے تخلیق کرنے شروع کئے اور جلد ہی ان کے افسانے ملک کے مختلف اخبارات اور جرائید میں شایع ہونے لگے اور انہیں بحیثیت افسانہ نگار ایک منفرد پہچان ملی ۔بعد میں عمر مجید روز نامہ آفتاب سے وابستہ ہو گئے اور یہ وابستگی دن بہ دن گہری ہوتی گئی ۔آپ عرصہ دراز تک آفتاب میں بحیثیت اسسٹنٹ ایڈیٹر کام کرتے رہے جب کہ مختلف عنوانات کے تحت کالم بھی تحریر کرتے رہے ۔ان کا ایک ہفتہ وار کالم ’’کشمیر نامہ ‘‘اخبار بین حلقوں میں کافی مشہور ہوا تھا ۔اس کالم میں مرحوم کشمیر کے سیاسی سماجی اور معاشی موضوعات پر بڑے ہی منفرد اور دلچسپ انداز میں لکھتے تھے ۔آفتاب عمر مجید کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوا جہان ان کو مرحوم خواجہ ثناء اللہ بٹ کی سر پرستی میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے مواقعے نصیب ہوئے ۔ کچھ عرصہ تک مرحوم نے اگر چہ ہفت روزہ ’’رہبر ‘‘ کی ادارت بھی سنبھالی لیکن آفتاب کا ساتھ کبھی نہیںچھوڑا ۔جس کا اعتراف مرحوم نے ان الفاظ میں کیا ہے ۔ ’’ میں روز نامہ’’ آفتاب ‘‘کی پیداوار ہوں ’’آفتاب‘‘ نے مجھے گویائی بخشی اور پروان چڑھایا ۔اس لحاظ سے مدیر’’ آفتاب‘‘خواجہ ثناء اللہ بٹ نا چیز کے مربی بھی ہیں اور مخدوم بھی‘‘۔ (عمر مجید کے بہترین افسانے ص 19 )
کشمیر نامہ کالم کی مقبولیت کے پیش نظر بعد میں نور شاہ اور جاوید ماٹجی نے اس کو مرتب کرکے کتابی شکل دی جب کہ ڈاکٹر اشرف آثاری اور علی محمد صوفی نے بھی کئی قسطوں کو مرتب کرکے کتابی صورت میں شایع کیا ہے۔ عمر مجید کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ اُجالوں کے گھائو1968ء میں شایع ہوا جب کہ ان کے دوناول ’’ یہ بستی یہ لوگ ‘‘1970ء میںاور ’’درد کا دریا‘‘1976ء میں منظر عام پر آکر داد تحسین حاصل کر چکی ہیں ،علاوہ ازیں ان کی وفات کے بعد نوجوان نقاد سلیم سالک نے 2009ء میں ’’عمر مجید کے بہترین افسانے‘‘ کے نام سے ایک افسانوی مجموعہ بھی مرتب کیا ہے ،جس میں چوبیس افسانے اور کچھ مختصر افسانے بھی شامل ہیں ۔کچھ اطلاعات کے مطابق زیتون (ناول ) سمیت مرحوم کا کچھ ادبی سرمایہ ابھی بھی غیر مطبوعہ ہے اور کچھ ضایع بھی ہو چکا ہے ۔عمر مجید اپنے ادبی سفر کے دوران کئی ادبی انجمنوں سے بھی وابستہ رہے جن میں ’’تلاش ادب ‘‘، ’’ رائیٹرس گلڑ سرینگر ‘‘اور اردو اکادمی جموں کشمیر قابل ذکر ہیں۔اردو اکادمی کی بنیاد ڈالنے میں مرحوم کا اہم رول رہا ہے ۔
مرحوم عمر مجید فن افسانہ پر مضبوط گرفت رکھتے تھے اور شہرت اور انعام و اکرام کی تمنا سے بالا تر ہو کر لکھتے تھے ۔ان کے افسانوں میں ہر قسم کے موضوعات ملتے ہیں اور عام لوگوں کا درد چھلکتا نظر آتا ہے ۔افسانہ ’’گونگے گلاب‘‘، ’’میری گلی کا غم‘‘ ’’ِشہر کا اغوا‘‘، ’’ماتم کے بعد ‘‘ ، ’’درد کا مارا‘‘ وغیرہ افسانوں کے مطالعے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ان کے تحریر کردہ افسانے زندگی کی تلخ حقیقتوں سے بھر پور ہیں مرحوم اپنے ہی ارد گرد کے کرداروں کا انتخاب کرتے تھے ۔اس بات کی عکاسی معروف فکشن نگار نور شاہ ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
’’عمر مجید کے افسانوں کا ایک الگ ہی انداز ہے ۔وہ افسانہ لکھنے کے ڈھنگ سے بخوبی واقف ہیں ،وہ اپنے کردار زمین کی کھردری سظح پر تلاش کرتے ہیں اور چن چن کر انہیں اپنے افسانوں میں قید کر لیتے ہیں ۔اسلوب کا ستھرا پن ان کی کہانیوں کی نمایاں خصوصیت ہے ،کشمیر ،کشمیریت اور کشمیر کی زندگی ان کے محبوب ترین موضوعات ہیں‘‘۔ (عمر مجید کے بہترین افسانے ،مرتب سلیم سالک ص27)
عمر مجید اپنے افسانوں کے ذریعے کشمیری عوام کے بے پناہ مسائیل کو بہترین انداز میں اجاگر کرتے تھے ۔کشمیر کے نا مساعد حالات پر بھی انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کئے ہیں جن میں’’ گمشدہ جنت‘‘ ،’’میری گلی کا غم‘‘،’’شہر کا اغوا‘‘ جیسے افسانے قابل ذکر ہیں جن میں انہوں نے کشمیر کے نا مساعد حالات ،بے چینی اور درد کرب کی ایک منفرد اور علامتی انداز میں دل چھو لینے والی عکا سی کی ہے ۔عمر مجید کے افسانوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ہ ڈاکٹر اشرف آثا ری یوں قم طراز ہیں ۔
’’ ماسٹر جی وادی کشمیر کے با صلاحیت افسانہ نویس ہیں ۔ان کی کہانیوں میں وہ کسک ،وہ چھبن اور وہ درد ہوتا ہے کہ ان کی بات دل ہی میں نہیں بلکہ روح کی گہرائیوں میں اثر کرکے وہاں ارتعاش و تلاطم پیدا کر دیتی ہے ۔سب سے پہلے ان کی کہانیاں انہیں رلاتی ہیں اور پھر وہ قارئین و سامعین کو رلاتی ہیں ،جب وہ کہانیاں اور افسانے تخلیق کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے ٹپ ،ٹپ آنسوں گرتے رہتے ہیں ۔جب وہ اپنے کلاس روم میں ،مستقبل کے ڈاکٹروں ،انجینروں،پروفیسروں اور افسروںکی تخلیق کرتے رہتے تھے تو ان کی لاٹھی خوب چلتی رہتی تھی اور ان کے شاگردوں کی آنکھوں سے بٹپ ،ٹپ،ٹپ،آنسوں گرتے رہتے تھے ‘‘۔(عمر مجید کے بہترین افسانے ،مرتب سلیم سالک ص 25 )
مرحوم عمر مجید نے اگر چہ اپنے ادبی سفر کے آغاز سے دم واپسی تک کافی متحرک ر ہ کر بے لوث انداز میں ار دو زبان و ادب ا ور صحافت کی آبیاری کرتے رہے لیکن انہیں وہ پزیر آئی نہیں ملی جس کے وہ مستحق تھے ان کی حیاتی میں انہیں کوئی ایوارڑ نہیں دیا گیا جب کہ انتقال کے بعد اردو اکادمی کی طرف سے انہیں بعد از مرگ ایواڑ سے نوازا گیا ۔
مرحوم کے جاننے والوں کے مطابق آپ ذاتی زندگی میں انتہائی ملنسار ،ہر ایک سے محبت کرنے والے ،مخلص ،سادہ مزاج اور با اخلاق انسان تھے ہر ایک کی خوشی اور بھلائی کے لئے کوشاں رہتے تھے لیکن خود ان کو زندگی میں بہت کم خوشیاں نصیب ہوئی چنانچہ ڈاکٹر اشرف آثاری لکھتے ہیں ۔
عمر مجید کے ساتھ جن لوگوں کے قریبی روابط رہے ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس فرشتہ صفت انسان کو زندگی میں مسکرانے کے بہت کم مواقع ملے ہیں لیکن اس بات کے باوجود بھی صبر واستقامت کامادہ اس میں اس حد تک کوٹ کوٹ تک بھرا ہوا تھا کہ دماغ و ذہن پر پریشانیوں ،اندیشوں اور بیماری کے زبردست اور شدید کوڑے برسنے کے با وجود بھی اُف تک نہیں کرتے تھے ،(شیرازہ بیاد عمر نجید ص 78 (
نوے کی دہائی میں جب کشمیر کے حالات نے اچانک ایک بھیانک کروٹ لی اور ہر طرف دھماکے اور گولیوں کی گن گرج سنائی دینے لگیں ،انسانی خون ارزاں ہو گیا اور ہر انسان بے سکون و پریشان ہوگیا تو عمر مجید جیسے حساس دل ر کھنے والا کہانی کار کیسے ان کربناک حالات کے شکار نہ ہوتے ۔اس دوران آپ ایک لمبے عرصے تک دنیا و مافیا سے بے خبر قلم و قرطاس سے رشتہ توڑ کر گم سم گھر میں پڑے رہے۔آخر ایک طویل وقفے کے بعد اپنی خاموشی توڑتے ہوئے ہفتہ روزہ ’’ کشمیر عظمٰی ‘‘کے مدیرجاوید آذر کے نام ایک طویل خط لکھا ۔ مضمون کی طوالت کے پیش نظر دلچسپ ہونے کے باوجود اس خط کو پیش کرنے سے قاصر ہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ خط پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ لالچوک سرینگر میں ایک دھماکے اور گولیوں کی گن گرج کے ایک دلدوز واقع میں اپنے ہی پڑوسی عبدلخالق حجام کی المناک موت کا بچشم خود دیکھنے کے بعد وہ کیسے درد اور کرب میں مبتلا ہو گئے تھے ۔طویل عرصے کے بعد قلم و قرطاس سے دوبارہ رشتہ استوار کرنے کے بعد انہوں نے نا مساعد حالات کو موضوع بنا کر کئی دل چھو لینے والے شاہکار افسانے تخلیق کرکے ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اسے پہلے کہ وہ اردو ادب کے گلشن میں کچھ اور خوبصورت گل کھلاتے 23 دسمبر 2006ء کو اللہ کے اذن سے اپنے چاھنے والوں کو داغ مفارقت دے کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔انااللہ و انا الیہ راجعون ۔
مرحوم عمر مجید ،جو اپنی دل چھو لینے والی تحریروں کی صورت میں تا دیر لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے ، کی شخصیت اور شاندار ادبی سفر کے تمام پہلئوں کو اس مختصر سے مضموں میںضبط تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے مگریہ ایک خوش آئیند بات ہے کہ ا ردو اکادمی جموں کشمیر ،نگینہ انٹر نیشنل اور دیگر ادبی تنظیموںنے ان کے علمی و ادبی کارناموں کونمایاں کرنے کے لئے قابل قدر کام انجام دیاہے ۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماعی طور پر مرحوم عمر مجیدکے فن اور شخصیت کے تمام پہلئوں کو نمایاں کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جائیں تاکہ نئی پود کو ان کے نا قابل فراموعلمی و ادبی خدمات سے روشناس کیا جا سکے ۔آخر پر مرحوم کی یاد میں نوجوان شاعر سلیم ساغر کے کہے یہ اشعار۔
پیکر صدق وصفا وہ صاحب عالی وقار
روٹھ کر ہم سے گیا اردو ادب کا شہسوار
جس کے ماتھے کی چمک اسلاف کی تصویر تھی
جس کی ساری زندگی خود علم کی تفسیر تھی