بارش کب کی تھم چکی تھی۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔ شام میرے آنگن میں اپنا خیمہ گاڑھ رہی تھی۔ ایک سنہری کرن نے میری انگلی تھام لی اور ہم رات کے میلے کا وہ حیرتناک منظر رکھنے چلے گئے، جس کے بارے میں میں برسوں سے سنتے آیا تھا۔
میلے میں کئی سٹال سجے ہوئے تھے۔ کچھ سٹال ایسے تھے جہاں سپنے بکتے تھے۔ کچھ سٹال ایسے بھی تھے جن پر صرف اونچی ذات کے لوگ خریداری کرسکتے تھے۔ کچھ سٹالون پر فقط چہرے بکتے تھے۔ میں نے کچھ سٹالوں پر حُسن (Beauty)کی خریداری ہوتے دیکھی۔
ایک سٹال پر تعجب منظر دیکھنے کو ملا۔ یہاں تاریخ کے اوراق بکتے تھے۔ ایک سٹال پر کچھ اجنبی چہرے قلیل معاوضے کے بدلے الفاظ کے خزانے لُوٹ رہے تھے۔ ایک سٹال پر کچھ لوگوں کو مہمل الفاظ کی خریداری میں مگن پایا۔ ایک اور سٹال پر فن اور ادب بک رہا تھا۔ یہاں اس سٹال پر ثقافتی ورثے کے ساتھ جُڑی اشیاء کی سستے داموں میں خریداری ہورہی تھی! اسی اسٹال کے ودسرے حصے میں اعزاز بِک رہے تھے۔
ایوارڈ خریدنے کے لئے لوگ قطار در دقطار کھڑے تھے!
ایک سٹال پر میں نے انسانی لہو کو بکتے دیکھا۔ اس سٹال پر خریداروں کی بھاری بھیڑ جمع تھی۔ لوگ لہو خریدنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے تھے! ایک سٹال پر جھوٹ کے عوض سچ بکتا تھا۔ ایک سٹال پر لوگ علم کےبدلے جہالت خریدرہے تھے!
میں نے ایک سٹال پر چند دوشیزائیں دیکھیں، جو نوحہ خوانی کررہی تھیں۔ جب میں نے ایک دوشیزہ سے سبب پوچھا تو اُس نے نم دیدہ آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کپکپاتی آزاد میں بولی۔
’’ابھی ہم میں سے کسی کا سہاگ لُٹ جائے گا۔ ہم اسی لئے نوحہ خوانی کررہی ہیں!‘‘
دوشیزہ کا جواب سُن کر میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی!
شب کے اس میلے میں ایک سٹال پر روشنی بک رہی تھی،پر تعجب کا عالم ہے اس سٹال پر کوئی بھی خریدار دیکھنے کو نہیں ملا۔
میلے کا یہ عبرتناک منظر دیکھ کر میں پسینوں میں غرق ہوا۔ میری آنکھیں خودبخود نم ہوئیں۔ میں پتھریلی زمین پر بیٹھ گیا اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ وہ سنہری کرن مجھے تنہا چھوڑ کر کب کی چلی گئی تھی۔۔!
میں تنہائیوں کے حصار میں تھا۔
’’دوست دھیرج رکھو۔۔۔۔ تمہیں ابھی بہت کچھ دیکھنا ہے، بہت کچھ سہنا ہے۔‘‘ میں نے پلٹ کے دیکھا، یہ ایک اجنبی شخص تھا جس کی قلندزانہ چال تھی۔
’’بابا۔۔۔بابا۔۔۔۔بابا۔۔۔ یہ۔۔۔۔ یہ کیا ہورہاہے۔۔۔ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں!!‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
اُس اجنبی شخص نے میرے سرپر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر بولا۔
’’دوست! یہ پتھروں کا نگر ہے۔۔۔ یہاں نہ کان سنتے ہیں اور نہ لب بولتے ہیں! اس نگر میں لوگ مکار، خودغرض اور عیاش تھے۔ آخر کار رو رو کر پتھر بن گئے۔ ابھی جو کچھ تم نے دیکھا۔ یہ سب سٹال پتھروں کے ہیں اور پتھر ہی ان کے وارث ہیں! پتھروں کے نگر میں خوابوں کی پرورش کوئی نہیںکرتا۔ دوست! اس میلے سے بھاگ جائو۔۔۔ ورنہ تم بھی ایک سٹال پر سستے داموں بِک جائوگے!!‘‘
���
آزاد کالونی پیٹھ کا نہامہ بیروہ،موبائل نمبر؛9906534724