میرے محبوب

ندیم کویونیورسٹی تعلیم کے دوران بھی فلمیں دیکھنے کاپاگل پن کی حدتک شوق تھا۔ اس نے کئی فلمیں دو دو تین تین بار دیکھیں تھیں۔’’میرے محبوب ‘‘ تو اس نے ۱۳بار دیکھی تھی کیونکہ اس میں اس کے پسندیدہ  ہیرو اور ہیروئن تھے۔ اس کے علاوہ فلم میں دلکش اُردومکالمات تھے اوربہترین غزلیات شامل تھیں۔ دونوں اداکاروں نے بہترین اداکاری کامظاہرہ کیاتھا اور دونوں کے رول بہت دلکش اورخوب صور ت انداز میں پیش کئے گئے تھے ۔
کچھ تووہ دونوں خودخوب صورت تھے اورکچھ آجکل کے میک اپ نے اپناکمال دکھایاتھا۔ ان ہی وجوہات کی بناپر ندیم نے اس فلم کوتیرہ باردیکھاتھا۔
فلم کاوہ سین بہت ہی رومانی تھا جس میں راجندر کمار اور سادھناکسی کلاس میں جاتے ہوئے یونیورسٹی گرائونڈایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور سادھنا کی کتابیں زمین پربکھرجاتی ہیں۔آنکھیں چارہوجاتی ہیں اور پیارہوجاتاہے۔۔۔۔
یہ سین ندیم کے دماغ پر کافی اثراندازہوا۔ اس نے سوچاکیوں نہ یہ نسخہ عشق کی باز ی جیتنے کیلئے آزمایاجائے۔بس پھرکیاتھا ۔ایک دن جب ناظمہ کسی کلاس میں جارہی تھی تو ندیم نے موقع غنیمت جان کر اسکوہلکی سی ٹکرلگادی۔ دونوں کی کتابیں زمین پربکھرگئیں۔مگروہ کچھ نہ ہوا جس کی ندیم نے اُمیدکی تھی بلکہ اس کے بالکل اُلٹ ہوا۔
ناظمہ نے اپنی کتابیں سمیٹ لیں۔کھڑے ہوتے ہی وہ ندیم پربرس پڑی۔بولی۔اندھے ہوگئے ہو۔نظرنہیں آتا۔ بدمعاش کہیں کے۔نکالوں چپل ۔کردوں تمہارادماغ ٹھیک۔
یہ سُن کرندیم دُم دباکر وہاں سے بھاگا۔اِدھراُدھرسے چند طلباء بھی اکٹھے ہوگئے اوردریافت کرنے لگے کہ کیاہواتھا؟
خیربات آئی گئی ہوئی۔
ندیم کواپنی غلطی کازبردست احساس ہوا ۔وہ اب ناظمہ سے منہ چھپائے پھررہاتھا۔ اس نے اس واقعہ کے بعداپنارویہ بالکل بدل دیا۔ گھرسے یونیورسٹی اوریونیورسٹی سے گھر۔ ادھر اُدھر جھانکنا بند۔ فضول باتیں بند۔ بس اپنے کام سے کام رکھا۔
وہ نمازپہلے سے پڑھتاتھامگراب اس میں اورباقاعدگی اورسنجیدگی لائی۔
کچھ عرصہ بعدناظمہ کویہ احساس ستانے لگاکہ اس نے ندیم کے ساتھ بہت بُراکیا۔ اسے اتنانہیں بھڑکناچاہیئے تھا۔ زبان سے بھی بُرابھلاکہااورجوتامارنے کی بھی دھمکی دی۔ اندھااوربدمعاش بھی کہا۔
ہائے !! میںکتنی بدتمیزی سے پیش آئی۔ہوسکتاہے اس نے یہ سب کچھ جان بوجھ کرنہ کیاہو۔اللہ معاف کرے۔
وہ ندیم سے مل کرمعافی مانگنے کوبھی تیارہوگئی۔کیاوہ معاف کرے گا؟اللہ کرے ایساہو۔یہ خیال ناظمہ کے دِل ودماغ میں باربار آرہاتھا۔اس خیال نے ناظمہ کو بے چین اوربے قرارکرکے رکھ دیا۔
ناظمہ آہستہ آہستہ ندیم کے قریب آنے کی کوشش کرتی رہی۔سلام کرتی۔معافی مانگتی۔اپنے کئے پرپچھتاتی ۔مگرنتیجہ اُدھرسے خاموشی اورلاتعلقی کے سواکچھ نہ ملا۔
ناظمہ نے سوچاتھاکہ ندیم ایک نہ ایک دن پگھل جائے گا۔مگریہ اسکی خام خیال تھی۔اِدھرندیم نے اپنے آپ کوراہ راست پرلایا اُدھرناظمہ نے یہ کوشش جاری رکھی کہ کسی طرح ندیم اسے معاف کرے۔ مگرایساکچھ بھی نہ ہوا۔
جب ایم اے کے نتائج کااعلان ہوا۔تو ندیم اول درجہ میں کامیاب قرارپایا۔ ناظمہ مبارکباددینے کے بہانے چاپلوسی تک کاسہارا لیکرندیم کے قریب گئی۔معافیاں مانگیں۔مگرپھربھی کچھ نہ بنا۔
ناظمہ اب اورزیادہ پریشان ہوئی۔نیندیں اُڑ گئیں۔ کلاس میں بالکل چپ چاپ رہنے لگی۔بھوک تک ختم ہوگئی۔ 
امتحان میں کامیابی کے ساتھ ہی ندیم کی منگنی کی افواہیں بھی اڑنے لگیں۔ اب ناظمہ اورزیادہ پریشان ہونے لگی۔
ایک دن اس نے یونیورسٹی گرائونڈمیں موقع پاکر ندیم کوگھیرلیا۔بڑے جذباتی اندازمیں معافی مانگی۔کہاآپ بھی مجھ سے وہ سب کہوجومیں نے آپ کوکہاتھا۔ یہ چپل لو۔میرے سرپرمارو۔جوکچھ کرناہے کرومگرایک بارمعاف کردو۔۔۔
مزیدہمت جٹاکر یہ تک کہہ دیاکہ آپ کسی دوسری لڑکی کاخیال بھی دِل میں نہ لائو۔ ورنہ میں اپنی زندگی ختم کردوں گی۔پھرآپ افسوس کروگے۔
 میں کسی اورسے بیاہ نہیں کروں گی۔ایسامیں سوچ بھی نہیں سکتی۔
یہ میراپہلااورآخری فیصلہ ہے۔
اسی اثناء ندیم کے والدصاحب نے بھی یہ سارامعاملہ کسی کی زبانی سنا۔ وہ ناظمہ کے چال چلن اورحسن اخلاق سے بہت متاثرہوا۔ اس نے کہاکہ انہیں ایسی ہی بہو چاہیئے جواپنے کردارکی حفاظت کرے اور کسی بھی سڑک چھاپ مجنوں کوایساہی سابق سکھانے کی ضرورت ہے۔
اس نے ساری بات سننے کے بعدندیم سے کہا کہ اس کامطلب صاف ہے کہ لڑکی باکردار ہے جبھی تواس نے یہ سب کچھ کیا۔ مجھے ایسی ہی بہوکی تلاش ہے۔
میں ایسی بیٹی کوشاباشی دیتاہوں۔
بیٹے ندیم! کیاتم چاہتے ہوکہ ہرٹکرکاانجام عشق اورپھرشادی ہو۔ ایسی شادیاں دیرپانہیں ہوتی ہیں۔تم اس کو معاف کرواوربات کوآگے بڑھائو۔ندیم کے والد نے صاف کہہ دیا۔
اب ندیم اپنے والدصاحب کی دلائل سے متفق ہوااورناظمہ سے منگنی اورشادی کیلئے دِل سے تیارہوگیا۔مگریہ سب کچھ ندیم نے اپنے اندرراز ہی رکھا۔وہ لڑکی کولگاتارنظرانداز کرتارہاپھرجب ندیم نے نظراندازی کی تمام حدیں پارکیں تووہ پھراچانک لڑکی کی طرف متوجہ ہوا۔اُسکو معاف کیا اور معاملہ رفع دفع ہوا۔
ناظمہ یہ سن کرخوشی سے جھوم اٹھی ۔اس نے ندیم کاشکریہ ادا کیا۔جوکچھ ہواتھااسکودِل ودماغ سے اُکھاڑ پھینکنے کیلئے التجاکی۔
ناظمہ نے ندیم کاشکریہ ادا کیا۔ مگرندیم نے کہاکہ اصلی شکریہ کاحقدار تومیرے والدبزرگوار ہیں، جنھوں نے یہ کہہ کرمیرافیصلہ بدل دیاکہ’’ کیاتم چاہتے ہوکہ ناظمہ تمہاری ٹکرکاجواب عاشقی سے شروع کرکے منگنی سے ہوتے ہوئے شادی پرختم کرتی‘‘۔اس کے بعدندیم اورناظمہ کے تعلقات دن بدن استوار اور خوشگوار ہوتے گئے۔ آخرکار دونوں کی شادی باہمی مرضی اوروالدین کی رضامندی سے ہوئی۔ ان کوڈھیرساری دعائیںملیں۔نیک خواہشات اور تمنائوں کے ساتھ دونوں کی شادی خوشی خوشی انجام پذیرہوئی۔اس طرح اللہ تعالیٰ نے تینوں کی یعنی ندیم کی ناظمہ اور والدمحترم کی دعائوں اورتمنائوں کوکامیابی کارنگ دیا۔جذبہ نیک ہوتو کوئی کام مشکل نہیں۔
رابطہ نمبر۔8825051001