میری بات | استاد۔جس کے دم سے ہےزندگی آباد

رقیہ مظفرپوری

استاد کے ادب سے علم کی راہ آسان ہو جاتی ہے استاد روح کی غذا فراہم کرتے ہیں استاد مشکل سے مشکل ترین مسلے کو ہنستے ہوئے حل کرنے کا فن عطا کرتے ہیں۔استاد زندگی کی حقیقت کے سمندر میں غوطہ لگانے کا ہر شعور عطا کرتے ہیں۔استاد ہمیں آسمان کی بلندیوں پر چڑھنے کے لیے گویا پنکھ عطا کرتے ہیں اور حسن اسلوبی کے ساتھ اُڑنے کا حوصلہ دیتے ہیں۔استاد ہمیں اپنی خودی میں ڈوب کر سراغ زندگی پانے کا مشورہ بھی دیتے ہیں ،وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ راستے کہ کسی بھی موڑ پر تھک کر بیٹھنا نہیں، اپنا سفر ہمیشہ جاری رکھنا ہے۔والدین کے بعد استاد ہی ایک ایسی شخصیت ہے جو اپنے شاگرد کے لیے بھلا چاہتے ہیں، منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کرنے کا فن عطا کرتے ہیں اور کامیابی پر دل و جان ایک کر کے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ استاد تو کتابوں کی ابرو ہے، اگر استاد نہ ہو اور ان کی رہنمائی نہ ہو تو کتابوں کو پڑھنے تو دور کی بات ہے، کھولنے والا بھی کوئی نہیں رہے گا۔ استاد صرف پڑھاتے نہیںیا علم و تعلیم کی روشنی ہی فراہم نہیں کرتے بلکہ ہمیں زندگی کی تمام شعبوں میں حسن اخلاق سے اپنا کام نکالنے اور مدد کا جذبہ فراہم کرتے ہیں۔بقول ڈاکٹر کامران غنی صبا:’’پڑھا دینا کمال نہیں پڑھنے کا جذبہ جگہ دینا کمال ہے۔‘‘

استاد نصاب کے علاوہ غیر درسی کتاب میں بھی دلچسپی پیدا کر دیتے ہیں ۔کب کس کتاب کو پڑھنی ہے ،کیسے پڑھنی ہے، مطالعہ میں دلچسپی کیسے آئے، ان سب مسائل کا حل ان کے علاوہ اور کوئی نہیں بتا سکتا۔ استاد کتابی معلومات کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی معلومات کو حاصل کرنے اور ان کو سیکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے۔ ہمارے والدین ہمیں جسمانی غذا فراہم کرتے ہیں تو وہیں استاد روح کی غذا فراہم کرتے ہیں، استاد زندگی میں بہترین فیصلہ لینے اور مختلف دشواریوں سے نمٹنے کا طریقہ بتاتے ہیں ،استاد ہمیں جہاں اُڑنے کے لیے پنکھ عطا کرتے ہیں وہیں اڑنے کا خوبصورت سلیقہ بھی سکھا دیتے ہیں ،استاد ایک ایسی بھٹی کا نام ہے جہاں مٹی سے اینٹ نہیں بلکہ سونے سے بھی قیمتی چیز بنانے کا کام کرتے ہیں، یہ کندن کی صورت اگر کوئی عطا کرتا ہے تو وہ ہے استاد اور استاد کا وجود ہے۔استاد ہماری زندگی کو مثبت طریقہ سے سوچنے سمجھنے اور جینے کا گر سکھاتے ہیں، منفی خیالوں سے مثبت نظریہ پیدا کرنے کا ہنر بخشتے ہیں اور ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو آگے بڑھانے کے لیے ہمارے اندر حوصلہ پیدا کرتے ہیں، ہر جملے میں شاباش کیا لطف دیتا ہے۔استاد تو وہ ہستی ہے کہ غلطیوں پر شاباش کہتے ہیں اور کہتے ہیں بیٹا سب ٹھیک ہے ،بس یوں کر لو۔ استاد ہمیں خود اعتمادی سکھاتے ہیں یہ ہمیں غیر ضروری مصروفیات اور غیر ذمہ دارانہ رویے سے دور رکھنے اور رہنے کا درس دیتے ہیں جس کی وجہ سے ڈپریشن کی طرح کئی بیماریوں سے بھی ہم آزاد اور محفوظ رہتے ہیں۔ آج لائبریریاں ویران ہیں لوگ ڈپریشن کے مریض ہوتے جا رہے ہیں جس کی ایک وجہ اساتذہ سے دوری اختیار کرنا بھی ہے۔ روح کے غذا سے محروم لوگ خودکشی جیسی ناپاک حرکت کر بیٹھتے ہیں، اس کی بھی ایک بنیادی وجہ کتاب اور اساتذہ سے دوری ہے یعنی اساتذہ سے پہلے اپنا رشتہ مضبوط کریں ،ان کے اقوال پر ان کی نصیحت کو گرہ باندھ کر تادم حیات رکھیں۔ ہماری نئی نسل کے بگڑنے کا پورے معاشرے میں شکوہ اور شکایت ہے ،اب شکوے شکایت سے قطع نظر والدین اور بچوں کو چاہیے کہ اساتذہ کی رہنمائی کو لازم پکڑیں اور اساتذہ کا احترام کریں، ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں ،اس سے علم کی راہیں آسان ہوتی ہیں ۔اساتذہ تدابیر کا خزینہ ہوتے ہیں، وہ زندگی کے ہر موڑ سے آگاہ ہوتے ہیں اور اپنے شاگردوں کو پہلے مطلع کر دیتے ہیں۔استاد صبر اور شکر دونوں کو ضم کر کے اپنے شاگرد میں ڈالتے ہیں، استاد کے دست شفقت میں وہ تاثیر ہے کہ ان کی نظر عنایت سے کامیابی کے دروازے کھلتے ہیں۔استاد پڑھاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ میں پروفیسر ہوں یا میں ایک ٹیچر ہوں، اپنے ذاتی خیالات تو وہ جذبات اور رجحان کو وقتی طور پر بھول جاتے ہیں اور بچوں کے معیار پر اتر کر انگلی پکڑتے ہیں اور رفتہ رفتہ منزل پر پہنچا کر دم لیتے ہیں بلکہ خود سے اونچائی پر لے جا کر چھوڑ دیتے ہیں۔ استاد اپنی بیش قیمت رہنمائی سے ہماری روحانی ،جذباتی اور جسمانی زندگی کو خوشگوار بنا دیتے ہیں۔ استاد کی زبان وہی ہوتی ہے جو شاگرد سمجھتا ہے ،ایک مخصوص رنگ میں اپنے شاگرد کو رنگ کر نمایاں کر دیتے ہیں ۔ طلبہ کے آنکھوں کو دیکھ کر یہ بتا دیتے ہیں کہ آج اسائنمنٹ بنا ہے یا نہیں یا پچھلا سبق یاد ہے یا نہیں۔میرے اساتذہ کی فہرست میں ڈاکٹر کامران غنی صبا، صدر شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور اور مولانا حامد حسین،اور نقی احمد سر وہ نایاب شخصیت ہیں جن کی طرز تدریس اور رہنمائی کی وجہ سے ہی آج میں کچھ لکھنے پڑھنے کی کوشش کررہی ہوں۔

استاد تو ماں کی طرح ممتا رکھتے ہیں، ہزار غلطیوں کے بعد بھی وہی دشت شفقت وہی محبت وہی انداز گفتگو وہی نرم و لہجہ استاد کا مرتبہ کیوں نہ اعلیٰ ہو، یہ تو کبھی نہ ختم ہونے والی دولت عطا کرتے ہیں ، بلکہ بانٹنے سے بڑھنے اور بڑھنے والی دولت جسے کوئی چرا نہ سکے اور نہ کوئی بے ایمان اسے ہڑپ سکے ،استاد تو عطردان ہیں اسی عطردان کی مختلف خوشبو ہماری زندگی کے تمام شعبوں کو مہکاتے رہیں گے۔

[email protected]
��������������