مولانا محمد عابد احمد جامعی
اللہ رب العزت نے تمام مخلوقات میں انسان کو رفعت و فضیلت کا تاج عطا فرمایا اور اشرف المخلوقات کے مقام پر فائز کیا ۔ اسے بے شمار و انگنت نعمتوں اور سہولتوں سے نوازا ۔ہر وہ چیز اسے عطا فرمائی جو خوشحال و سہل زندگی جینے کے لیے ضروری تھی ۔ حسب استطاعت اپنے احکام کا پابند بنایا اور حدود و قواعد کے ساتھ چند ذمہ داریاں بھی دیں ۔ چونکہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے اور انسان کی تخلیق کا مقصد اصلی اسکی آزمائش ہے ۔ تو بارہا کلام مقدس میں یاد دہانی کرائی گئی کہ انسان دنیوی زندگی میں اخروی زندگی کے لیے زاد راہ اکھٹا کرے اور شب وروز اخروی فلاح وبہبود کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔اسلئے کہ دنیوی زندگی دائمی اور پائدار نہیں بلکہ عارضی اور فانی ہے ۔لہٰذا کہیں انسان نفس پرستی اور میلان نفسی کے سبب اس وقتی خوبصورتی و چمچماہٹ والی دنیا کے فریب میں نہ آجائے اور مقصد اصلی کو بھلا بیٹھے ۔ اپنی آخرت تباہ و برباد کرکے بروز محشر کف افسوس ملتا رہےتو ساتھ ساتھ اسے محاسبہ نفس کی جا بجا دعوت دی گئ اور غور و فکر کرنے کا حکم بھی دیا گیا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے،’’ اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو ، اور ہر جان کو یہ دیکھنا چائیے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا اور اللہ عزوجل سے ڈرو بے شک رب ذو الجلال تمہارے اعمال کی خبر رکھنے والا ہے ۔‘‘ آیت مبارکہ کا بغور مطالعہ کریں تو یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا اور اخرت دو ہی چیزیں ہیں ۔ دنیا کو آج سے تعبیر کیا جارہا ہے اور آخرت کو’ لغد‘ یعنی آنے والے کل سے تعبیر کیا جارہا ہے ۔گویا کہ پوری زندگی کا خلاصہ بس ‘ دو دن ‘ ہے ۔پتہ یہ چلا کہ دنیوی زندگی کتنی قلیل و مختصر ہے ،یہ زندگی برف کی طرح تیزی سے پگھل رہی ہے اور انسان غفلت کی چادر اوڑھے بے خطر سو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ عزوجل نے محاسبہ نفس کے مضمون کو مؤکد کرنے کے لیے آیت مبارکہ میں دو بار’’اتقوااللہ‘‘ فرمایا تاکہ اسکی ضرورت و اہمیت لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو جائے، اور وہ لمحہ لمحہ محاسبہ نفس کی فکر کریں۔ مختصر یہ کہ پہلے ‘ اتقوااللہ ‘ کا تعلق فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ہے کہ فرائض مجھ سے ڈرتے ہوئے ادا کرو ۔ اور دوسرے ‘ اتقوااللہ ‘ کا ربط محرمات سے ہے کہ جن چیزوں کو میں نے تم پر حرام کیا، ان سے بھی مجھ سے ڈرتے ہوئے بچتے رہو ۔امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓفرمایا کرتے تھے ،’’ و تزینوا للعرض الاکبر‘‘ یعنی سب سے بڑی پیشگی کے لیے تم تیاری کرو، جو سب سے بڑی نمائش گاہ ہے ۔ آج انسان کسی چھوٹے فنکشن میں شرکت کرنے کے لیے پہلے ہی سے ہزاروں جتن اور طرح طرح سے تیاریاں کرتا ہے کہ کہیں کوئی نقص و کمی نہ رہ جائے ، بدن پاک و صاف ، کپڑے پریس کیے ہوئے بے داغ ، جوتے پالش شدہ ، اور بالوں کو سنوار کر ، خوشبو چھڑک کر مکمل تیاری کے ساتھ فنکشن میں شریک ہوتا ہے۔
حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے وہ بزم محشر کہ جس میں تمام لوگ صف بصف سروں کو جھکائے کھڑے ہونگے اور بھرے مجمع میں رب ذوالجلال کے حضور تمہاری پیشگی ہوگی تو کیا اس ہولناک دن کے لیے بھی تونے کوئی تیاری کی ہے ؟ کہ جب چمکتے ہوئے سفید چہرے سیاہ ہو جائیں گے ۔ کلیجے منہ کو آرہیں ہونگے اور زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی ۔ آنکھیں نیلی پڑ جائیں گی۔
لٰہٰذا اس دن ان لمحات سے نجات پانے کے لیے بندے کو محاسبہ کرنا چاہئے اور پوری کوشش و تیاری کرنی چاہئے تا کہ اس عرض اکبر کے دن بھی یوم جزا کے مالک کی بارگاہ میں کامیاب و سرخرو ٹھہرےاور ذات رحیم و کریم اس کو ایسا مقام و مرتبہ عطا فرمائے کہ حشر میں بھی اس کی تحسین ہورہی ہو ۔ لوگ اس کے چہرے کی چمک و نورانیت دیکھ کر عش عش کر اٹھیں اور پوچھیں کہ یہ کون شخص ہے ،جس کے چہرے پر بارش انوار و تجلیات جھماجھم ہورہی ہے ۔ تو اپنے آپ کو عرض اکبر کے لیے تیار کرنا ہی شریعت کی اصطلاح میں ‘ محاسبۂ نفس سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں محاسبہ نفس اور فکر آخرت کی توفیق بخشے ۔آمین
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)