مہور//مرکزی سرکار کے دوردراز علاقوں کو شہر سے جوڑنے کے دعوے اُس وقت کھوکھلے ثابت دکھائی دے رہے ہیں جب کوئی انسان ضلع ریاسی کے مہور سب ڈویژن کی سڑکوں کی حالت کو دیکھتا ہے ۔ پورے سب ڈویژن مہور کے ساتھ ساتھ یہاں پر مہور سے بٹھوئی جانے والی واحد شاہراہ یہاں کے لوگوں کے لئے موت کا کنواں ہی ہے جہاں ہر انسان گاڑی میں چڑھتے وقت شاید جنازہ پڑھ کر ہی گاڑی پر قدم رکھتا ہو گا ۔ جہاں ایک طرف سے یہاں پر سڑک کی حالت ابتر ہے وہیں دوسری جانب ان ہی خستہ حالت سڑکوں پر کھچا کھچ سواریاں گاڑیوں میں ہوتی ہیں ۔ گاڑیوں کے اندر کے ساتھ ساتھ چھت پر بھی سواریاں بھری ہوتی ہیں۔ اس طرح کی لاپروائی کا خمیازہ چند ہفتے قبل مہور گول سڑک پر دس جانوں کے زیاں ہونے اور پندرہ سے زیادہ زخمی ہونے کی صورت میں اُٹھانی پڑی ۔ یہاں پر بھی ایک ٹیمپو سواریوں سے بھرا ہوا تھا ۔ جس گاڑی میں دس یا بارہ سواریوں کی گنجائش ہوتی ہے اُس میں پچیس یا تیس سواریاں بھری ہوتی ہیں ظاہر سی بات ہے کہ جہاں سڑکوں کی حالت ابتر ہو اور اس طرح سے گاڑیوں میں سواریاں ہو حادثہ تو ہونا ہی ہے اور یہ لا پروائی نہ صرف گاڑی کے ڈرائیوروں کی جانب سے بھرتی جا رہی ہے بلکہ اس میں پولیس اور انتظامیہ بھی پیش پیش ہے ۔ یہاں پر اگر چہ بازار میں تھوڑے دنوں کے لئے روک تھام کی گئی لیکن بعد میں وہی ہوا جو ہوتا تھا ۔ مہور بٹھوئی کی عوام نے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سرکاراور مقامی ممبر اسمبلی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جب یہ لوگ غریب عوام کو بنیادی سہولیات نہیں دے سکتے ہیں ان سے آج کے اس ڈیجیٹل دور میں باقی کیا اُمید رکھ سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ مودی کا ڈیجیٹل انڈیا اُس کے سامنے ہی ہے اُسے ان دوردراز علاقوںکی طرف بھی دیکھنا چاہئے جہاں کے لوگ ابھی بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ان کو ڈیجیٹل انڈیا کے خواب کیا دکھا رہے ہیں ۔ جہاں سڑک نہیں ، ہسپتال نہیں ، اسکول نہیں اگر ہیں تو ان کی حالت ابتر ہے ، اداروں کو چلانے والا کوئی نہیں یہاں تک کہ انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے تو ڈیجیٹل انڈیا کہاں ہے ۔ مقامی لوگوں نے بٹھوئی میں محکمہ تعمیرات عامہ، پی ایم جی ایس وائی کے خلاف سخت نعرہ بازی کرتے ہوئے کہا کہ ان محکموں نے تو کھدائی کر دی لیکن یہ نہیں دیکھا کہ یہ سڑک قابل استعمال ہے کہ نہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مہور سے بٹھوئی تقریباً بارہ کلو میٹر سڑک ہے جو پہلے پانچ کلو میٹر پی ڈبلیو ڈی کے تحت آتی ہے اور بعد میں پی ایم جی ایس وائی نے اسے تعمیر کیا لیکن تمام بارہ کلو میٹر سڑک کی حالت بد سے بد تر ہے اور اس سڑک کی کھدائی کے بعد یہ محکمے غائب ہو گئے ہیں ۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جہاں پر کچھ ڈنگے دئے لیکن نالوں کی باجری اور ریت لگا کر خزانہ عامرہ سے موٹی موٹی رقم نکال لی اور ڈنگے دھڑم کر کے نالوں میں گر رہے ہیں اور یہ حالت بل نکلنے کے ساتھ ہی ڈنگوں اور نالیوں کی ہوئی اور اس وقت بھی کئی جگہوں پر اس طرح سے غیر معیاری میٹریل کا استعمال ہو رہا ہے جس سے سڑک کی حالت مزید ابتر ہوتی جا رہی ہے ۔ اس طرح سے غیر معیاری میٹریل استعمال کرنے سے روکا جا سکے تا کہ خزانہ عامرہ کو چونا نہ لگ سکے ۔ لوگوں نے کہا کہ یہاں پر اُسی وقت لیڈر آتے ہیں جب ووٹ لینے ہوتے ہیں بعد میں ووٹ لے کر یہ لوگ غائب ہو جاتے ہیں اور تمام وعدے بھول جاتے ہیں ْ۔مقامی لوگوںنے سرکار اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ اس علاقہ کو ہندوستان کا حصہ مانتے ہیں اور انہیں اس ملک کا شہری سمجھتے ہیں تو ان کے ساتھ انصاف کیا جائے انہیں پہلی فرصت میں سڑک دی جائے اور جہاں سڑک ہے وہ موت کا کنواں ہے اس کو ٹھیک کیا جائے تا کہ یہاں کی عوام بھی باقی لوگوں کی طرح جی سکیں ۔