مہنگائی… غریب کا چولہا ٹھنڈا نہ پڑنے دیں!

 چند ریاستوں میں حالیہ اسمبلی انتخابات ختم ہوتے ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیاجارہا ہے ۔گزشتہ ایک ہفتے سے ہر روز قیمتوںمیں اضافہ کیاجارہا ہے اور اب تک جہاں رسوئی گیس فی سلینڈر قیمت میں پچاس روپے کا اضافہ کیاگیا ہے وہیں پیٹرول و ڈیزل کی قیمتوں میں بھی فی لیٹر پانچ روپے کا اضافہ ہوچکا ہے ۔ظاہر ہے کہ جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو ضروریات زندگی کی دیگر سبھی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوجانا ایک فطری عمل ہے اور یہی کچھ ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔اشیائے خور دونوش کی قیمتوں میں راتوں رات اضافہ ہورہا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ روز مرہ زندگی کی بیشتر چیزیں عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہونے لگی ہیں۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے جس طرح ہمارے ملک بھارت میںمہنگائی کا جن بوتل سے باہر آیا ہے ،اُس سے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے پڑنا شروع ہوچکے ہیں۔ضروری اشیاء ، جن کے بغیر کوئی زندہ نہیں رہ سکتا، اب وبائی مرض سے پہلے کی نسبت کئی گنا مہنگی ہوچکی ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کا رجحان کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے اور اضافے کا رجحان جاری ہے جس سے عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔مہنگائی کی مار جھیل رہے ہمارے معاشرے کے غریب طبقے کی پریشانیوں سے کوئی غافل نہیں ہے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ غریب کے لئے دو وقت کی روٹی جٹا پانا بھی مشکل ہوچکا ہے تاہم اب حالات یہاںتک پہنچ چکے ہیں کہ ہمارا متوسط اور اعلیٰ متوسط طبقہ بھی یکساں پریشاں ہے کیونکہ اب اخراجات ان کے بجٹ سے باہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔صورتحال اُس وقت تشویشناک بن جاتی ہے جبکہ آمدن کے ذرائع محدود ہوں۔ان تین برسوں میں ہم نے بچشم خود مشاہدہ کیا کہ بیشتر لوگوںکی آمدن میں اضافہ کی بجائے خاطر خواہ کمی واقع ہوئی اور دوسری جانب جب چیزوں کے دام بڑھ جائیں تو یہ دو دھاری تلوار بن جاتی ہے جو بیک وقت دو ضربیں دے رہی ہے ۔ایک آمدن کم اوردوسرا اخراجات زیادہ ۔ایک ایسے خاندان کی حالت زار کا تصور کریں جو اپنی روزی روٹی کھو چکا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے اس کی بچت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ یہ ایک بہت خطرناک منظر ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ تنگدستی اور اس کے نتیجے میں ڈپریشن کے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔گویا وبائی بیماری ہماری معیشت کی کمر توڑنے کے لیے کافی نہیں تھی، یوکرین میں جنگ چھڑ گئی۔ اس نے مہنگائی کو مزید تقویت دی اور اگر جنگ جاری رہتی ہے اور اگر یہ دوسرے علاقوں میں پھیلتی ہے تواس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بحران کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔مانا کہ سرکار نے مہنگائی پر قابو پانے کی کوششیں کیں اور مسلسل کررہی ہے تاہم بادی النظر میں حکومتی اقدامات کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ مہنگائی بتدریج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے اور عام آدمی کو راحت ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔اس صورتحال میں حکومت کیلئے صورتحال کا جائزہ لینا اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے مارکیٹ میں اختراعی مداخلت کرنا انتہائی ضروری بن گیاہے۔حکومت اس سنگین مسئلہ پر اُن ماہرین کے بحث و تمحیص کیلئے نہیں چھوڑسکتی ہے جن کا ٹیلی ویژن چینلوں اور اخبارات و سوشل میڈیا مباحثوں میں بحث کرنا مشغلہ بن چکا ہے ۔ ان نام نہاد ماہرین کے ایسی بحثیں اُس وقت تک ایک عام آدمی کیلئے کوئی مطلب نہیں رکھتی ہیںجب تک کہ قیمتوں کو واقعی قابو میں نہ کیاجائے۔حکومت کا کام صرف اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کو روکنا نہیں ہے بلکہ طویل مدتی منصوبہ میں قیمتوں کو نیچے لانا ہے۔ان لوگوں کیلئے جن کی کمائی کم ہے اور ہماری آبادی کا سب سے بڑا حصہ اس زمرے میں پڑتا ہے ،ان کیلئے دو وقت کی روٹی جٹاپانا مشکل ہوچکا ہے ۔ ایسے لوگوں کو حکومتی مدد کی اشد ضرورت ہے اور ان کی مدد کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مہنگائی کے اس رجحان کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کی جائے۔حکومت چاہے تو یہ ناممکن نہیں ہے ۔ہم ایک فلاحی ریاست کے باشندے ہیں جہاں حکومت عوام کو راحت پہنچانے کی مکلف ہے اور حکومت کے پاس یقینی طور پر ایسا انتظام ہمہ وقت موجود رہتا ہے جس کو بروئے کار عوام کی راحت رسانی یقینی بنائی جاسکتی ہے اور شاید ہی آج سے زیادہ عوام کو مہنگائی کی مار سے راحت پہنچانے کی ضرورت ہوگی ۔اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ ارباب بست و کشاد فوری طور مداخلت کرکے غریب عوام کی راحت رسانی کو یقینی بنانے کیلئے مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات کریں گے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ ارباب اقتدار عام عوام کی مشکلات سے لاتعلق اور بے نیاز ہیں۔