ایم ایس رحمن شمس
کشمیر کی عصری تاریخ ۱۹۳۱ ءسے بالخصوص اور ۱۹۴۷ءسے بالعموم ایسی شخصیات کے تذکرہ سے پُر ہیں جنہوں نے اپنے زریں کارناموں سے تاریخ کے صفحات میں اپنی نمایاں جگہ بنا لی۔ انہی چند شخصیات میں مہاجر ملت میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ صاحبؒ کے فرزند ارجمند مرحوم و مغفور میرواعظ مولوی محمد احمد شاہ کی ذات شامل ہے ۔
۱۹۳۱ءمیں خاندان میرواعظین کے اس بطل جلیل کی پیدائش میرواعظ منزل راجوری کدل میں ہوئی ۔ مولوی محمد احمد شاہ کی ولادت اور پیدائش ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں روز اول سے دین و دانش اور علم و فضل اور حکمت و دانائی کا چرچا اور غلغلہ رہا ہے ۔ اس خاندان کی دینی ،سماجی ،سیاسی ، رفاہی ، ملی اور تعلیمی خدمات تاریخ کا ایک زریں باب ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے ۔ عظیم باپ کے نامور فرزند مولوی محمد احمد شاہ صاحب اپنے حیات مستعار پوری کرکے ۳نومبر ۲۰۲۴ءکی رات اسلام آباد پاکستان میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ مرحوم مغفور کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر فوراً ذہن عربی کے فاضل اور عبقری شاعر کا حقیقت افروز کلام ذہن ودماغ میں گونجنے لگا۔
الا یا ساکن القصرالمعلی ستد فن عن قریب فی التراب
لنا ملک ینادی کل یوم لدو للموت وبنوا للخراب
ترجمہ:یعنی روزانہ ایک فرشتہ یہ صدا بلند کرتا ہے یعنی ندائے غیبی آتی ہے کہ اے بڑے بڑے محل اور مکانات تعمیر کرنے والے تمہیں عنقریب مٹی کے اندر دفن ہونا ہے اور تم پیدا محض اس لئے کئے جاتے ہو کہ ایک دن اپنی تعمیر کو تخریب میں تبدیل کرو۔
۳نومبر کی صبح میرواعظ مولوی محمد عمر فارو ق نے فون پر اطلاع دی کہ مولوی محمد احمد شاہ صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دراصل موصوف پیرانہ سالی کے دور سے تو گذر ہی رہے تھے تاہم گزشتہ چند دنوں سے صحت ذرا زیادہ ہی متاثر اور خراب ہو چلی تھی ۔ بہر کیف بیماری اور علالت تو ایک بہانہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہاں جو آیا ہے اُسے ایک دن جانا ہے ۔
جناب مولوی محمد احمد شاہ صاحب میرے مربی میرواعظ کشمیر مولوی محمد فاروق صاحب کے برادر نسبتی اور میرواعظ عمر فاروق صاحب کے رشتے میں پھوپھا بھی لگتے تھے۔مرحوم کی موت کی خبر پھیلتے ہی کشمیر میں رنج و الم کی ایک لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے جوق در جوق میرواعظ منزل کا رخ کرنا شروع کیا۔ میرواعظ نے مرحوم کی غائبانہ نماز جنازہ جامع مسجد سرینگر میں ادا کرنے کا اعلان کیا لیکن حکام نے حسب دستور نہ صرف میرواعظ کو اپنی رہائش گاہ میں نظر بند کردیا بلکہ جامع مسجد میں بھی پہرے بٹھا دیئے ،اور اس طرح اُن ہزاروں لوگوں کے جذبات کئے گئے جو اپنے عزیز قائد کے تئیں عقیدت کا خراج پیش کرنا چاہتے تھے ۔مرحوم کو بحریہ ٹاؤن اسلام آباد میں وہاں کی سرکردہ شخصیات اور عزیز و اقارب نے پر نم آنکھوں سے سپرد لحد کیا ۔
مجھے اس مرحلے سرور کائنات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی اور بشارت یاد آرہی ہے اور اس اعتبار سے یہ ہم سب کیلئے انتہائی حوصلہ افزا اور باعث سکون و طمانیت ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہے،’’ میرے جس امتی کی وفات اپنے وطن سے دور غربت اور مہاجرت کی حالت میں ہو تو جہاں اس کا انتقال ہوتا ہے وہاں سے اسکی پیدائش کی جگہ تک اتنا رقبہ جنت میں اس کے لئے محفوظ کردیا جاتا ہے۔‘‘ مرحوم کی پوری زندگی اپنے والد گرامی کی وطن عزیز سے مہاجرت کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گذری ،پردیس اور غربت میں انہیں اور ان کے پورے خانوادے کو نامساعد حالات اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔تاہم میرواعظ مولانا محمد یوسف شاہ نے جس استقامت اور عزیمت کے ساتھ وہاں کشمیری عوام کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی اور تادم آخر اپنے بلند اصولوں اور موقف پر قائم رہ کر اپنی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، وہ بھی تاریخ کشمیر کا ایک روشن باب ہے ۔
مولوی محمد احمد شاہ صاحب کی از اول تا آخر تعلیم و تربیت شہر سرینگر میں اسلامیہ ہائی اسکول اور اسلامیہ اورینٹل کالج میں ہوئی اور اس کے علاوہ انہوں نے دینیات اور فضیلت کے امتحانات پنجاب یونیورسٹی پاکستان سے امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ مولوی محمد احمد صاحب مرحوم اپنی خود نوشتہ سوانح حیات’’ روداد زندگی‘‘ جو ابھی زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی ہے، میں اپنی پیدائش کے حوالے سے رقمطرازہیں۔’’میری پیدائش۱۰؍ اپریل ۱۹۳۱ءبروز جمعہ کی ہے۔ ہجری تاریخ ۱۲ ؍ذی القعد۱۳۴۹ھ بنتی ہے۔ میرے والد کے چچا میر واعظ کشمیر مولوی احمد اللہ صاحب کا انتقال ۳؍اپریل بروز جمعة المبارک ۱۴؍ذی القعدہ ۱۳۴۹ھ کو ہوا اور اس کے اگلے جمعہ کو میری پیدائش ہوئی۔ اسی مناسبت سے میرا نام بھی احمد رکھا گیا۔ میری ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے ہمسائے میں محمد مقبول شاہ کے ژاٹہ حال (درس گاہ) سے ہوئی۔ وہاں میں نے ابتدائی قاعدہ اور قرآن شریف ناظرہ پڑھنا شروع کیا۔ اُن کے دو بیٹے بدر الدین اور عبدالسلام ہم عمر اور ہم سبق تھے، مگر والد صاحب وہاں کی تعلیم سے مطمئن نہیں تھے۔ اس لئے کچھ عرصہ بعد ہی انہوںنے اورینٹل کالج میں مولوی محی الدین صاحب کی کلاس میں داخل کیا۔ وہاں سے قرآن مجید ناظرہ ختم کرنے کے بعد وہیں اولیٰ میں داخل ہوا۔ اولیٰ، ثانی اور ثالث پاس کرنے کے بعد مولوی (مساوی میٹرک) میں داخل ہوا۔ ۱۹۴۴ءمیں مولوی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد ۱۹۴۵ءمیں مولوی عالم پاس کیا۔ ۱۹۷۴ءمیں مولوی فاضل کا امتحان دینا تھا۔ فسادات کی وجہ سے امتحان میں شامل نہ ہو سکا۔ چنانچہ بعد میں جب پاکستان آیا تو اس وقت اورینٹل کالج لاہور میں داخل ہو کر تعلیم مکمل کی اور پرائیویٹ طور پر میٹرک انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ چھوٹے ماموںمحمد نور الدین صاحب اورینٹل کالج سرینگر میں پرنسپل تھے اور عربی ادب کی ایک کلاس بھی پڑھاتے تھے۔ اس کے علاوہ والدصاحب کے ہم سبق اور ہم نام مولوی یوسف شاہ صاحب و ترہیلی مولوی فاضل میں حدیث پڑھاتے تھے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیرقاضی حسین احمد صاحب کے بڑے بھائی مولانا عبدالقدوس صاحب منطق پڑھاتے تھے۔ دوسرے اساتذہ میں بانڈی پورہ کے مولوی عبدالقدوس، ملارٹہ کے مولوی عبدالسبحان ، مراد آباد کے مولوی محمد ابراہیم اور مفتی کشمیر مفتی محمد شاہ مورخ کشمیر شامل تھے۔ کلاش پورہ نمچہ بل کے حکیم غلام رسول، ڈل حسن یار کے حکیم ثناءاللہ ، مخدوم منڈو کے عبدالعزیز ہمدانی اور رتن پورہ کے محمد مظفر ، اورینٹل کالج میں میرے ہم سبق تھے۔ سابق وزیراعلی مفتی محمد سعید بھی انہی دنوں اورینٹل کالج میں فارسی کلاسوں میں پڑھتے تھے۔
میں اکلوتا بیٹا تھا اور والدین کی شادی کے ۱۸سال بعد پیدا ہوا تھا۔ شادی کے کافی دیر تک جب اولاد نہیں ہوئی تو میری پیدائش سے چار سال پہلے میرے والدین نے میرے چچا مولوی یحیٰ صاحب کے بیٹے محمد یاسین کو پیدا ہوتے ہی گود لیا تھا، جب میں پیدا ہوا تو یاسین چار سال کا تھا۔ ہم دونوں اکٹھے بڑے ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی اکٹھے ہوئی، مگر اورینٹل کالج میں عد م دلچسپی کے باعث انہیں اسلامیہ ہائی سکول میں داخل کیا گیا۔۱۹۴۶ءمیں ہماری شادی اکٹھے ہوئی۔ مجھے دس بارہ سال کی عمر تک یہ معلوم ہی نہ تھا کہ یاسین میرے چچا کا لڑکا ہے۔ کیونکہ ماں باپ کے لاڈ پیار میں کوئی فرق نہیں تھا، بلکہ مجھ سے زیادہ اُسی سے لاڈ پیار ہوتا تھا۔ مجھے اپنے بچپن کی جو پہلی بات یاد پڑتی ہے، وہ چھوٹے ماموں مولو ی محمد نور الدین صاحب کی شادی کا واقعہ ہے۔۱۹۳۵ءمیں جب میں چار سال کا تھا، ان کی پہلی شادی رئیس کشمیر خواجہ ثناءاللہ شال کے بیٹے خواجہ سعد الدین شال صاحب کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ راجو ری کدل میر واعظ منزل سے جب دلہا گھوڑے پر سوار براتیوں کے ہمراہ روانہ ہوا، میں بھی اپنے بڑے بھائیوں محمد سعید ، محمد شفیع اور محمد یاسین کے ہمراہ گھوڑے کے پیچھے پیچھے خانیار تک جا کر واپس گیا۔ دوسرا واقعہ حضرت علامہ اقبالؒ کی وفات کا مجھے یاد ہے۔ ۱۹۳۸ءمیں جب میں اورینٹل کالج میں تھا تو اعلان ہوا کہ علامہ اقبال کی وفات کی وجہ سے سکول کالج بند ہوگا۔ میں صرف سات برس کا تھا ،سو اس سے زیادہ ان کی وفات کی زیادہ سمجھ نہ تھی۔
ہماری سیا سی تاریخ میں میری پیدائش کے سال۱۹۳۱ءکی بڑی اہمیت رہی ہے۔ یہیں سے سیاسی تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ میرے دادا مولانا رسول شاہ صاحب نے کشمیر میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے پیش نظر ان کے لئے مروجہ تعلیم کا آغاز کیا۔ اُس وقت مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا یہ حال تھا کہ جب کسی کے ہاں باہر سے کوئی خط آتا، تو اس کو اپنے ہمسائے پنڈت سے خط پڑھانے جانا پڑتا تھا۔ ۱۸۹۹ءمیں میرے دادا نے انجمن نصرة الاسلام کی بنیاد رکھی۔ اس کی تاریخ ’’مدرسہ فقہہ حدیث رسول‘‘ سے بنتی ہے۔ جس طرح سرسید نے مسلمانان ہند کی تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے علی گڑھ کی بنیاد رکھی، اُسی طرح میرے دادا نے انجمنِ انصرة الاسلام کی بنیاد رکھی۔ میرے دادا کی وفات کے وقت میرے والد کی عمر ۲۱، ۳۱سال تھی۔ میرے والد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی اپنے والد میر واعظ رسول شاہ صاحب اور چچا میر واعظ احمد اللہ صاحب کے زیر تربیت و نگرانی ہوئی ہے۔ پھر والد صاحب کی وفات کے بعد مولوی محمد حسین صاحب وفائی کے پاس اُن کی تعلیم ہوئی، مگر میرے والد اِن سے مطمئن نہیں تھے۔ اِسی لئے اُنہوں نے حصول تعلیم کے لئے دیوبند جانے کا ارادہ کیا۔ انہیں لگتا تھا دیوبند جانے کی اجازت نہیں ملے گی، سو گھر والوں کو بتائے بغیر نکل پڑے۔ وہ ابھی پہلے پڑائو راولپنڈی ہی پہنچے تھے توگھر والوں نے کچھ لوگ انہیں روکنے کے لئے بھیجے مگر میرے والد نے واپس جانے سے انکار کر دیا اور انہیں بتایا کہ میں کسی غلط کام سے نہیں جا رہا بلکہ دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں، سو مجھے جانے دیا جائے۔ انہیں روکنے والے ان کے جواب سے مطمئن ہوئے، سو ان کے بغیر ہی واپس کشمیر چلے گئے اور والد صاحب اپنے مقصد کے حصول کی جانب روانہ ہو گئے۔‘‘
چنانچہ مولوی محمد احمد صاحب کا سانحہ ارتحال ایک عظیم نقصان ہے ۔ وہ ایک شریف النفس فاضل ، جلیل القدر، حامل لحن داؤدی، باوقار مدبر عالم دین اور فاضل جلیل تھے اور اپنے عظیم المرتبت والد گرامی کے جانشین اور شہرت سے متنفر اور گریزاں خلیق شخصیت کے مالک تھے ۔ انکی دیگر گرانقدر اور بے لوث خدمات سے قطع نظر جس چیز نے اُن کو کشمیر کے آر پار لوگوں میں زبردست مقبولیت اور پذیرائی عطا کی وہ انکے نامور والد گرامی کی متداول تفسیر بیان الفرقان کی روزانہ کی بنیاد پر’’ آزاد کشمیر‘‘ریڈیو سے انکی اپنی آواز میں نشر کرنے کا اہم کام ہے جو بلا شبہ ان کے لئے ذخیرئہ آخرت اور زادِ راہ ہے اور تاصبح قیامت انکی آواز کی چاشنی سے لوگ استفادہ کرتے رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دیں اورانکے ورثا، لواحقین، میرواعظ خاندان کے جملہ ارکان بالخصوص موجودہ میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق اور انکے فرزند مولوی محمد یحیٰ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا کرنے کے ساتھ ساتھ صبر جمیل سے نوازیں۔ آمین
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں