ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُمت مسلمہ کو راہ ِحق کی ڈگر پر لائےاور عروج پہ پہنچانے کے بعد اس دنیا سے رخصت فرماگئے ۔ ہمارے اسلاف نے تنگ دستی و فکر فاقہ اور وسائل و ذرائع کی کمی کے باوجود عروج کے اُس تاج کو اپنے سر پہ سجائے رکھا اور بیش بہا قربانیوں سے زوال کو اپنے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیا۔ہمارے اسلافکے کارنامے زندگی کے ہر شعبہ میں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔ علم معاشیات،علم شماریات ،علم سماجیات کے ساتھ ساتھ دیگر دینوی و دنیاوی علوم میں آگے بڑھتے رہےیعنی ہر میدان میں نمایاں کارنامے سر انجام دیتے رہے۔
ہمارے اسلاف نے اپنے جہد مسلسل سے نہ صرف اپنا مستقبل روشن کیابلکہ اپنی آنے ولی نسلوں کے لئے مشعلیں روشن رکھیں تاکہ اُنہیں اندھیروں کا سامنا نہ کرنا پڑےاور مزید آگے بڑھ کر تمام دنیا کو اس روشنی سے منور کرسکیں۔مگر ہم ہیں کہ اپنی سُستی وکاہلی ، بدکرداری و بد اخلاقی،بے علمی و بے عملی، مادہ پرستی و خود غرضی، گمراہی،کج فہمی،تنگ نظری،تعصبات اور تقلید سے اپنے اسلاف کی تاریخ سے منہ موڑااور راہِ حق سے دُور ہو کر اپنے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسلوں کو تاریکی میں دھکیل دیا ہے۔یہی وجہ ہے ہم دنیا میں رسوائی اور ذلت کے شکار ہوئےاور غیر ہم پر مسلط ہوکر رہ گئے ۔آج ہماری زندگیاں ،ہمارا مستقبل غیروں کے ہی ہاتھوں میں ہے ۔ شائدہماری یہی صورتحال دیکھ کر علامہ اقبال نے کہا ہے۔ ؎
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ
ہمارے نوجوان جوقوم کے معمار ہیں، آج بھی ہوش کے ناخن نہیں لیتے ہیں۔ ہماری یہ نوجوان نسل نشے کی لت میں مبتلا ہے، ہماری یہ نسل بے راہ روی اور ذلت کی شکار ہوچکی ہے ۔ہمارے بزرگان کو بھی حال ِ مستی اور مال ِ مستی نے کہیں کا نہیں رکھا ہے۔اُن میں وہ اہلیت باقی نہیں رہی ،جن کا کوئی مثبت نتیجہ نکل آسکے۔جہاں انہوں نے اپنے اسلاف کو یاد نہیں رکھا وہیں وہ خود بھی بھول بھلیوںمیں کھو گئے۔ نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے،جہاں وہ اپنے آپ کا خیال نہ رکھ سکیں وہاں انہوں نے اپنی نسل نو کی تربیت سے منہ موڑ لیا ۔گویاقوم کے ذمہ دار لوگ خواب غفلت میں محو رہے اور بدستور سوئےہوئے ہیں ۔ ہائے! اُمت کی کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارے اسلاف نے جو شمع روشن کی تھی، اُس سے غیر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ جس کی طرف ڈاکٹر علامہ اقبال نے اشارہ کیا تھا ؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھا انکو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
تیرے وہ اسلاف اگرچہ عرب کے صحرا سے نکلے تھے لیکن انہوں نے دنیا میں نئے تمدن کی بنیاد رکھ دی ۔ علوم و فنون کے دریا بہا دیے ۔ حکمرانی( Adminstration )سیاست،سماجیت کا ایک نیا طریقہ دنیا کو سکھا دیا، عرب کا وہ ریگستان جو کبھی شتربانوں کی تربیت گاہ تھا، دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے نئے تہذیب و تمدن اور حکمرانی و جہانداری کے حقیقی انداز کی تحلیق کا باعث بنا۔تمہارے اسلاف نے اتنی شان وشوکت سے حکمرانی کی، جس کی مثال ابھی بھی دنیا میں قائم ہے۔ جن سے بڑے Administrators politicians اور جامع حیثات جیسے انسان آج بھی دنیا دیکھنے کے لئےترستی ہے۔
بقول علامہ اقبال میں تیرے صحرا نشین اور سادگی پسند اسلاف کی کیا خوبیاں بیان کروں تمہاری اتنی گہری سوچ ہی نہیں جو تم سمجھ سکو ،بس یہ سمجھ کہ وہ جہاں کو فتح کرنے والے تھے۔جہاں پر حکومت کرنے والے جہاں کو آراستہ کرنے والے تھے۔جہاں کو رونق بخشنے والے اپنی قوم کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لانے والے تھے۔
ہم تو ایسے اسلاف کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔ان کی شان وشوکت کے حالات، ان کی قابلیت ۔اگر ہمارے اور ہمارے اسلاف کا تقابل کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ ان میں اور ہم میں کوئی تعلق اور مشترکہ خصوصیات نہیںہیں کیونکہ ہم تو محض باتیں بناتے ہیں،جبکہ اُن کا سارا دھیان عمل اور کردار پر تھا، ان کے برعکس ہمارا دھیان ہوٹلوں،گلیوں ، سڑکوں، غلط کاموں میں ہوتا ہے۔ہم تو بے عمل اور محض مقلد ہے، لیکن وہ جدوجہد کے عادی لوگ ہمیشہ باعمل اور متحرک رہنے والے تھے۔
اگر ہم اپنے زوال کے اسباب پر غور کریں اور یہ سوچیں کہ آخر کیوںذلت و رسوائی کے شکار ہوئے۔ آخر کیوں غیر ہم یہ مسلط ہوئے ،آخر کیوں ہم غیروں کے پاؤں تلے دبے ہوئےہیں۔ہم پر ایسے لوگ مسلط ہوئے ،جن کا نہ کوئی طریق ،نہ تہذیب، نہ کوئی تمدن تھا۔وجہ یہی ہم نے اپنے اسلاف کا وہ علم طریقۂ کار ،تمدنو تہذیب ترک کردی جو ہمارے اسلاف نے ہمیں ورثہ میں دیا تھا، ہم نے جو کھودیا،وہ غیروں نے تھام لیا۔ہمارے وہ علم کے موتی آج اہل یورپ کے قبضے میں ہیں اور ان سے استفادہ کررہے ہیں۔آج مغرب کے قبضے میں اپنے علم کے موتی دیکھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہے۔ہمارا علمی سرمایہ غیروں کے قبضے میں دیکھ کر غنی کشمیری کا یہ شعر یاد آیا ؎
غنی! روزِ سیاہِ پیر کنعان را تماشاکُن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کُند چشم زلیخارا
(ترجمہ، اے غنی حضرت! یعقوب علیہ سلام کی سیاہ بخشی دیکھ کر ان کی آنکھوں کا نور ( حضرت یوسف علیہ سلام) زلیخا کی آنکھ کے لیے روشنی کا سمان بنا ہوا ہے)مراد کتابیں تو ہماری ہیں مگر فائدہ دوسرے اٹھاتےہیں، بالکل اسی طرح جیسے حضرت یعقوب علیہ سلام کے بیٹے کی جدائی میں اپنی آنکھوں کی روشنی کھو چکے تھے اور یعقوب علیہ سلام کے نور نظر ( حضرت یوسف علیہ سلام) سے زلیخا کی آنکھیں منور ہو رہی تھی۔
وائے حسرتا!آج جس ماحول ومعاشرے میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں، یہ خود غرضی کا ماحول ہے۔یہاں پہ خود غرضی کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ یہاں سب اپنی فکر میں مگن ہے ۔ہر فرد مال و دولت کیلئے کوشاں ہے، ہر جائز و ناجائز راہیں اختیار کرنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے ہم نے اپنی قوم کی فکر کرنی چھوڑ دی اور آج ذلت و رسوائی اور ظلم کی چکی میں پستے چلےجارہے ہیں۔جب کہ ہم صرف یہ جانتے ہیں۔ سمجھتے نہیں، کُل مَن علیھا فان ۔
959640237