جموں//اگر کشتواڑ میں جڑواں ندیوں یعنی مارو-سودر پرپکل برسر 850 میگاواٹ پاور پروجیکٹ کے تحت ایک آبی ذخائر تعمیر کیا جاتا ہے تو 6000 سے زیادہ خاندانوں کومڑواہ کے چار سے پانچ گاؤں سے مبینہ طور پر بے گھر ہونے کا خدشہ ہے۔ڈی ڈی سی مروہ شیخ ظفر اللہ نے کہا کہ یہ منصوبہ اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے اور فزیکل طور پر کچھ کوارٹرز کی تعمیر کے علاوہ کچھ نہیں ہوا ہے۔تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ذخائر آبادی والے دیہاتوں کو جو کہ پہاڑوں سے گھرے ہوئے ہیں ایک گہری جھیل میں ڈوب جائے گا اور بڑی آبادی کو بے گھر کردے گا جبکہ یہ ماحول کو غیر مستحکم کرے گا۔ ڈی ڈی سی مروہ، شیخ ظفر اللہ نے کہا"مجوزہ پاور پروجیکٹ (ذخائر) کی وجہ سے مڑواہ میں حکومت ہند کی رپورٹ کے مطابق 6000 سے زیادہ گھر والے (خاندان) ڈوبنے والے ہیں۔اس میں تقریباً 4 سے 5 ریونیو گاؤں ہیں جو مکمل طور پر ذخائر میں ڈوب جائیں گے‘‘۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ہم سے بات نہیں کی حالانکہ انہوں نے مڑواہ میں پاور پراجیکٹ کے حوالے سے رپورٹ تیار کی ہے۔ انہوں نے ہمالیائی زون کی زلزلہ کی صورتحال کو جانتے ہوئے بھی زلزلے کی فالٹ لائنز کا اعلان نہیں کیا ہے۔ مقامی آبادی کے تحفظات کو خاطر میں لائے بغیر ڈیموں کے بعد ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ "اس منصوبے کے مبینہ طور پر منفی اثرات نہ صرف مڑواہ پر پڑیں گے، بلکہ مستقبل میں پوری وادی چناب پر پڑ سکتے ہیں"۔ انہوں نے کہا ’’جب سابق ریاست جموں و کشمیر میں ایک منتخب حکومت تھی توہم 57 دنوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے اور مڑواہ میں آبی ذخائر کی تعمیر کی مخالفت کے لیے ڈور ٹو ڈور مہم بھی شروع کی گئی تھی۔پھرسابق وزیربجلی سنیل شرما ہمارے ساتھ دہلی آئے اور ہم نے اس وقت کے مرکزی وزیر برائے بجلی سے ملاقات کی۔ ہم نے اس وزیر کو ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں ان سے مڑواہ میں بجلی کے مجوزہ منصوبے کو ترک کرنے کی درخواست کی تھی۔ تاہم، اس کے بعد کچھ نہیں ہوا"۔انہوں نے کہا کہ "اگرچہ ہمارے پاس آبادی کو بے گھر کیے بغیر چار چھوٹے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس کا دائرہ کار موجود ہے، کوئی ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں"۔انہوں نے کہا کہ منصوبے کی تعمیر میں مصروف متعلقہ ایجنسی نے مبینہ طور پر اپنی ماحولیاتی رپورٹ میں ہم سے مشورہ نہیں کیا۔ ہم رپورٹ کو پبلک کرنے کا کہہ رہے ہیں لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ عوام کی اکثریت اس منصوبے کو ماننے کو تیار نہیں ہے اور عوام میں شدید ناراضگی ہے۔ان کاکہناتھا"کچھ بیوروکریٹس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ مقامی لوگ اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں، لیکن یہ زمینی حقیقت نہیں ہے۔ جب لوگوں کو لاپرواہی کا سامنا کرنا پڑا تو لوگوں نے جولائی 2017 سے احتجاج شروع کر دیا‘‘۔ڈی ڈی سی نے مزید الزام لگایا کہ "ڈیم / آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے درکار زمین یعنی 79.30 مربع کلومیٹر اس میں سے انہوں نے ہائی ایلٹیٹیوڈ نیشنل پارک سے 17.29 مربع کلومیٹر یہ دعویٰ کرتے ہوئے حاصل کیا ہے کہ وہاں آبادی کا زیادہ دباؤ ہے جو کہ حقیقت نہیں ہے۔ اس طرح، مبینہ طور پر اونچائی والے نیشنل پارک کی حدود کو تبدیل کر دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ علاقہ زلزلہ زدہ زون کے تحت آتا ہے، اور مزید دعویٰ کیا کہ یہ منصوبہ زرعی معاشرے پر برا اثر پڑے گا۔انہوں نے مزید الزام لگایا کہ حکومت کے پاس ان لوگوں کی بحالی کے لیے کوئی مناسب منصوبہ نہیں ہے جو اکھڑ جائیں گے۔جب کشتواڑ کے ڈپٹی کمشنر اشوک کمار شرما سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں پروجیکٹ کی حالت کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔انہوں نے جواب دیا"یہ میرے نوٹس میں نہیں ہے حالانکہ ڈی پی آر مرحلے میں کچھ ہو سکتا ہے" ۔