مٹن کے طالب علم کی تشویشناک حالت برقرار

 اسلام آباد (اننت ناگ)//ملک عبدالاسلام// فورسز کی طرف سے طلاب کو نشانہ بنانے کے خلاف جنوبی قصبہ اسلام آباد(اننت ناگ) میں طالب علموں نے احتجاج کرتے ہوئے ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ مٹن کے کھل چورہ رانی پورہ سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم 27مئی فورسز کاروائی میں زخمی ہوا اور وہ اس وقت سرینگر کے صدر اسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ مٹن بائز ہائر اسکینڈری اسکول کے طالب علموں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ماہ کے آخری ہفتے میں فورسز اہلکاروں کی جانب سے بے تحا شا طاقت کے استعمال کے نتیجے میں ایک طالب علم شدید زخمی ہوا ۔احتجاجی طلاب نے بتایا کہ 12ویں جماعت کا طالب علم سمیر احمد ساکنہ کھل چورمٹن اس وقت صدر اسپتال سرینگر میں زیر علاج ہے اور وہ موت وحیات کی کشمکش میں مبتلاءہے ۔طلباءکا کہنا ہے کہ27مئی کو احتجاج کے دوران سی آر پی ایف کی96ویں بٹالین سے وابستہ اہلکاروں نے اسکول میں داخل ہوکر پرامن طور پر احتجاج کر رہے طلاب کو نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا” فورسز اہلکاروں نے سمیر کو نشانہ بنا کر کاروائی کی ،جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوا“۔انہوں نے کہا کہ سمیر کے کندھے پر اس وقت اسکول بیگ لٹک رہی تھی اور اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا،جس کے بعد کسی طرح ایمبولنس میں سوار کر کے اس کو مٹن اسپتال پہنچایا گیا۔احتجاجی طلاب نے کہا کہ فورسز نے8گولیاں چلائی جس میں سے ایک سمیر کو لگی۔اس موقعہ پر ایک طالبہ نے بتایا گولیاں چلانے کے بعد فورسز نے سنگبازی بھی کی اور اس دوران طالبات کو بھی بخشا نہیں گیا،اور کئی ایک طالبات بھی زخمی ہوئیں،اور کئی ایک بے ہوش ہوگئیں۔انہوں نے کہا کہ وہ اسکول میں خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔اس موقعہ پر احتجاجی طلاب نے ملوث اہلکاروں کے خلاف قتل کا کیس درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ان اہلکاروں کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ پولیس نے واقعے سے متعلق پہلے ہی کیس درج کیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کیس فورسز کے خلاف اقدام قتل کے حوالے سے درج نہیں کیا گیا ہے۔ کشمیر عظمیٰ کو سنیئر پولیس افسر نے بتایا کہ اس سلسلے میں ایک کیس درج کیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہے،تاہم اسکول انتظامیہ کا کہنا ہے کہ انہیں ایف آئی آر کی کاپی نہیں دی گئی۔ان کا کہنا ہے” اگر چہ اس سلسلے میں کئی بار پولیس کو ایف آئی آر کاپی مانگی گئی تاہم ابھی تک نہیں دی گئی“۔ اسکول کے اساتذہ نے بھی طلاب کے بیان کی حمائت کرتے ہوئے فورسز کی کاروائی کو بے جا قرار دیا۔انہوں نے بتایا” طلاب کی طرف سے کوئی بھی اشتعال انگیزی نہیں تھی،اگر چہ طلاب احتجاج اور نعرہ بازی کر رہے تھے،تاہم ایسی کوئی وجہ نہیں تھی کہ فورسز اس قدر سخت کاروائی کرتے“۔ ایک خاتون استاد نے کہا کہ اگر چہ پہلے طلاب نے باہر جاکر احتجاج کرنے کی کوشش کی تھی،تاہم اسکول انتظامیہ نے انہیں سمجھا بجھا کر واپس لایا تھا،اور وہ اسکول میں پرامن طور احتجاج کر رہے تھے۔ ایک اور سنیئر استاد نے کہا کہ فورسز کی کاروائی سے لگتا تھا کہ وہ طلاب کو مارنا چاہتے تھے۔ادھر صدر اسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سمیر کی حالت بدستور تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے” سمیر کے سر کے پچھلے حصے میں فریکچر ہیں اور کچھ ہڈیاں دماغ میں پیوست ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ طالب علم کا آپریشن کیا گیا ہے اور اس کی حالت اس وقت اگر چہ مستحلم ہیں،تاہم بدستور نازک بھی ہے،اور وہ وینٹی لیٹر پر ہیں۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ سمیر کے سر پر گولی لگی ہوئی ہے یا ٹیر گیس شل،کیونکہ اس کے سر میں کوئی بھی بیرونی چیز موجود نہیں تھی۔