ڈاکٹر ریاض احمد
ہندوستان میں، IIT-JEE، NEET (میڈیکل انٹری ٹیسٹ) اور CAT) MBA انٹری ٹیسٹ) جیسے مسابقتی امتحانات کو کامیابی کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ یہ امتحانات طلبہ پر بے حد دباؤ ڈالتے ہیں، جس کی وجہ سے موٹیویشنل اسپیکرز پر انحصار بڑھ گیا ہے تاکہ وہ حوصلہ بلند کر سکیں اور رہنمائی فراہم کر سکیں۔ اگرچہ موٹیویشنل اسپیکرز طلبہ کو متاثر کر سکتے ہیں، لیکن ان کا اثر مثبت اور منفی دونوں پہلو رکھتا ہے، خاص طور پر جب ایسے ہائی اسٹیکس(highStakes) حالات کا سامنا ہو۔
۱۔ ہندوستانی طلبہ پر موٹیویشنل تقریروں کا اثر:۔موٹیویشنل اسپیکرز ان طلبہ کی مدد کر سکتے ہیں جو سخت دباؤ والے ماحول میں مرکوز اور ثابت قدم رہنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہندوستانی موٹیویشنل اسپیکرز جیسے کہ سندیپ مہیشوری اور ڈاکٹر ویویک بندرا لاکھوں پیروکار رکھتے ہیں کیونکہ وہ طلبہ کے مسائل سے جُڑے رہتے ہیں۔ ان کی تقریریں مستقل مزاجی، مؤثر وقت کی منصوبہ بندی، اور مثبت ذہنیت پر زور دیتی ہیں، جو مسابقتی امتحانات کے امیدواروں کے لیے نہایت اہم ہے۔
ایک قابل ذکر مثال JEE سیمینارز ہیں جو ایلن اور آکاش جیسے کوچنگ انسٹی ٹیوٹس میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ ان سیمینارز میں کامیاب افراد اور ماہرین کی تقریریں طلبہ کو اونچا سوچنے اور بہتر کارکردگی دکھانے کی ترغیب دیتی ہیں۔ کئی طلبہ ان سیشنز کو اپنے اعتماد کو بڑھانے میں مددگار مانتے ہیں۔
۲۔ مثبت سمت میں اثر انگیزی :۔موٹیویشنل تقریریں اکثر طلبہ کو مشکلات پر قابو پانے کا نیا زاویہ فراہم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر،سندیپ مہیشوری کی ’’آسان ہے‘‘ (Aasaan Hai) فلسفہ طلبہ کو سادہ طریقے سے مسائل کا سامنا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کی تقریریں طلبہ کو بڑے خواب دیکھنے اور ناکامیوں سے نہ گھبرانے کا حوصلہ دیتی تھیں۔ ان کا مشہور قول، ’’خواب، خواب، خواب۔ خواب خیالات میں بدلتے ہیں، اور خیالات عمل میں تبدیل ہوتے ہیں‘‘، ہندوستانی نوجوانوں پر گہرا اثر رکھتا ہے۔جہاں طلبہ کئی بار ناکامیوں کی وجہ سے مایوسی محسوس کرتے ہیں، وہاں موٹیویشنل تقریریں امید کو دوبارہ زندہ کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جو طلبہ پہلی بار IIT-JEE میں ناکام ہوتے ہیں، وہ کامیاب افراد کی کہانیاں سن کر نئی توانائی کے ساتھ دوبارہ کوشش کرتے ہیں۔
۳۔ موٹیویشنل اسپیکرز کی کمی کیا ہے؟ :اگرچہ موٹیویشنل اسپیکرز مثبت اثر ڈال سکتے ہیں، لیکن وہ کامیابی کی راہ کو اکثر حد سے زیادہ آسان بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ بعض بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دیتے، جیسے:دماغی صحت کے چیلنجز: ۔امتحانات کے دباؤ نے طلبہ میں ذہنی صحت کے بحران کو جنم دیا ہے۔ موٹیویشنل تقریریں عموماً عملی ذہنی صحت کی مدد فراہم نہیں کرتیں اور نہ ہی پیشہ ورانہ مدد لینے کے حوالے سے معاشرتی بدنامی (stigma) کو ختم کرنے پر زور دیتی ہیں۔
سماجی و اقتصادی رکاوٹیں:ہر طالب علم کو معیاری تعلیم یا وسائل تک رسائی حاصل نہیں ہوتی، اور موٹیویشنل تقریریں اکثر ان عدم مساوات کے حل پر روشنی نہیں ڈالتی ہیں۔
مثال: کوٹا میں طلبہ کی خودکشیاں: کوٹا، راجستھان، جو IIT اور میڈیکل امتحانات کی تیاری کا مرکز سمجھا جاتا ہے، وہاں طلبہ کی خودکشیوں کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، 2023 میں کوٹا میں 20 سے زائد طلبہ نے خودکشی کی۔ سخت تعلیمی دباؤ، خاندان سے دوری، اور ناکامی کا خوف طلبہ کے لیے ناقابل برداشت بن جاتا ہے۔ اگرچہ کوچنگ سینٹرز موٹیویشنل اسپیکرز کو مدعو کرتے ہیں تاکہ طلبہ کا حوصلہ بلند ہو، لیکن یہ سیشنز اکثر دباؤ کی بنیادی وجوہات جیسے کہ غیر حقیقی توقعات، جذباتی سپورٹ کی کمی، اور تعلیمی نظام کی خامیوں پر توجہ نہیں دیتے۔
۴۔ کیا ہر کسی کے لیے موٹیویشنل تقریریں سننا ضروری ہے؟:۔موٹیویشنل تقریریں ہر کسی کے لیے مؤثر نہیں ہوتیں۔ وہ طلبہ جو پہلے ہی اپنے مقصد کے بارے میں واضح اور خود سے متحرک (self-motivated) ہیں، انہیں بیرونی تحریک کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم، وہ طلبہ جو خود اعتمادی کی کمی، سستی (procrastination) یا اضطراب (anxiety) کا شکار ہیں، انہیں ان تقریروں سے مدد مل سکتی ہے۔
کامیابی کی مثال: بہت سے کوچنگ انسٹی ٹیوٹس ٹاپرز کی تقریریں استعمال کرتے ہیں تاکہ طلبہ کو تحریک دی جا سکے۔ جب طلبہ کسی ایسے شخص کو سنتے ہیں جو انہی مراحل سے گزر چکا ہو، تو وہ زیادہ جُڑے محسوس کرتے ہیں۔
حدود کی مثال: کبھی کبھی، یہ تقریریں الٹا مزید دباؤ ڈال سکتی ہیں۔ مثلاً، جب کوئی ٹاپر اپنی کامیابی کو صرف محنت اور مستقل مزاجی کا نتیجہ بتاتا ہے، تو جو طلبہ اسی محنت کے باوجود ناکام ہوتے ہیں، وہ خود کو ناکافی محسوس کر سکتے ہیں۔
۵۔ کیا موٹیویشنل اسپیکرز کی اثر انگیزی کے بارے میں کوئی تحقیق موجود ہے؟:۔ہندوستان میں تعلیمی موٹیویشنل اسپیکرز کی طویل مدتی اثر انگیزی پر محدود اعداد و شمار موجود ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ موٹیویشنل تقریریں عارضی طور پر حوصلہ بڑھا سکتی ہیں، لیکن اس کا طویل مدتی اثر عملی فالو اپ اور سپورٹ سسٹم پر منحصر ہوتا ہے۔
کامیابی کی مثال: 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق، 60فیصدشرکاء نے موٹیویشنل سیمینار کے فوراً بعد خود کو زیادہ پرعزم اور واضح محسوس کیا۔ تاہم، صرف 30فیصدنے ایک ماہ بعد بھی اس موٹیویشن کو برقرار رکھا کیونکہ انہیں مستقل مدد نہیں ملی۔
ناکامی کی مثال : IIT-JEE تیاری کرنے والے طلبہ پر کی گئی ایک سروے میں 80فیصدطلبہ نے موٹیویشنل تقریریں مددگار قرار دیں، لیکن بہت سے طلبہ نے یہ بھی اعتراف کیا کہ مسلسل کامیابی پر زور دینے کی وجہ سے وہ دباؤ کا شکار ہو گئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موٹیویشنل اسپیکرز کو متاثر کن تقریروں کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ رہنمائی بھی فراہم کرنی چاہیے۔
نتیجہ :موٹیویشنل اسپیکرز ہندوستان میں مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے طلبہ کے لیے رہنمائی اور تحریک دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم، ان کی مؤثریت کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ طلبہ کی عملی اور جذباتی ضروریات کو کس حد تک پورا کرتے ہیں۔
اگرچہ موٹیویشنل تقریریں ایک ضروری حوصلہ فراہم کر سکتی ہیں، لیکن وہ نظامی اصلاحات (systemic reforms)، پیشہ ورانہ ذہنی صحت کی مدد، یا ایسی ثقافت کی جگہ نہیں لے سکتیں جو بہبود (well-being) کو صرف کامیابی سے زیادہ اہمیت دیتی ہو۔ ان خلا کو پُر کرنا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو جامع مدد فراہم کی جا سکے اور وہ نہ صرف امتحانات بلکہ زندگی کے دیگر چیلنجز کا بھی مؤثر مقابلہ کر سکیں۔
[email protected]